ریاض میں مسلم رہنما غیر معمولی عرب-اسلامی سربراہی اجلاس میں جمع ہوئے تھے ، جس کی صدارت سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کی۔ اجلاس کا محور خطے میں جاری تنازعات تھے۔
سربراہی اجلاس میں رہنماؤں نے شمالی غزہ میں اسرائیلی فوج کے اقدامات کو شدید مذمت کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں ’’نسل کشی‘‘ قرار دیا، جن میں تشدد، پھانسیاں، گمشدگیاں اور ’’نسلی تطہیر‘‘ شامل ہیں۔ اختتامی بیان میں ان اقدامات کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں قرار دیا گیا۔
بیان میں زور دیا گیا کہ اسرائیل کو خطے میں ’’جامع‘‘ امن کے قیام کے لیے تمام مقبوضہ علاقوں سے دستبردار ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ، رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ فلسطینی مشرقی یروشلم پر اختیار حاصل کریں اور اسے فلسطینی علاقوں کا دارالحکومت‘‘ قرار دیا جائے۔
اعلان میں مقبوضہ مشرقی یروشلم (القدس) پر فلسطینی خودمختاری کی توثیق کی گئی اور شہر کی شناخت تبدیل کرنے یا اس پر قبضے کو مضبوط کرنے کے اسرائیلی اقدامات کو مسترد کیا گیا۔
رہنماؤں نے اقوام متحدہ کے نمائندوں اور دیگر حکام کے فلسطین میں داخلے کی کوششوں پر اسرائیلی پابندیوں کی مذمت کی۔
اجلاس میں نمایاں رہنماؤں میں اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم، کویت کے ولی عہد شیخ صباح الخالد، متحدہ عرب امارات کے نائب صدر شیخ منصور ، ترکی کے صدر رجب طیب اردگان، ایران کے نائب صدر رضا عارف، پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور دیگر رہنماء شامل تھے۔
اجلاس کے افتتاح پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ اور لبنان میں اسرائیلی اقدامات کو فوری طور پر روکے، ان اقدامات کو ’’نسل کشی‘‘ قرار دیتے ہوئے سعودی عرب کی فلسطینی اور لبنانی بحران میں مدد کی حمایت کی۔ انہوں نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ ایران کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ نہ کرے اور سعودی-ایران تعلقات کی حالیہ بہتری کو بھی اجاگر کیا۔
پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے فلسطینیوں کی ’’منظم نسل کشی‘‘ پر عالمی برادری کے ’’بہرے پن اور خاموشی‘‘ پر مایوسی کا اظہار کیا اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے فوری کارروائی پر زور دیا۔
شہباز شریف نے ایران اور لبنان کے خلاف اسرائیل کے حالیہ حملوں کی بھی مذمت کی اور خبردار کیا کہ اسرائیل کی جارحیت ایک وسیع تر جنگ کا باعث بن سکتی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ اجلاس بیانات کو بامعنی عمل میں تبدیل کرے گا۔