اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں۔ پولیس کی فراہم کردہ ابتدائی تحقیات کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھاری انعامی رقم اور ذاتی اختلافات کے باعث شاہد لُنڈ کے ایک قریبی ساتھی اور رشتے دار نے اسے گولیاں مار کے قتل کیا ہے۔ واضح رہے کہ پنجاب کے محکمہ داخلہ نے ڈاکو شاہد لُنڈ کے سر کی قیمت 1 کروڑ روپے مقرر کر رکھی تھی۔
پولیس کے دیے گئے بیان کے مطابق شاہد لُنڈ اور قاتل کے درمیان گہرا تعلق تھا لیکن کچھ ہفتے پہلے شاہد لُنڈ نے قاتل کی بھابھی کو اغوا کرلیا تھا جس کے بعد قاتل اور شاہد لُنڈ کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے۔ پولیس کو ان اختلافات کا علم دونوں کی ٹیلی فونک گفتگو سے ہوا۔
پولیس نے دونوں کے مابین اختلافات کی تصدیق و تحقیق کے بعد قاتل سے رابطہ کرکے اسے شاہد کے قتل کا ٹاسک دیا جسے قاتل نے انعامی رقم اور ذاتی تحفظ کی ضمانت پر قبول کرلیا۔ بعد ازاں قاتل نے موقع تلاش کرکے شاہد کو رات کے وقت اس کے گھر سے باہر بلاکر گولیاں ماردیں۔
موقع پر شاہد اکیلا تھا اور نہتا بھی۔ وہ موقع پر ہی مرگیا تھا۔ قاتل، شاہد کو گولیاں مارنے کے بعد موٹر سائیکل پر اپنے گھر گیا اور پھر وہاں سے پولیس کی ہدایات میں سفر کرتا رہا۔ بعد ازاں راجن پور کی پولیس نے قاتل کو بیک اپ دیا اور وہاں سے بحفاظت نکال کر اپنی تحویل میں لے لیا۔
شاہد کو قتل کرنے کے بعد قاتل نے پولیس افسران سے جو گفتگو کی اسے بھی منظر عام پر لایا گیا ہے۔ بی بی سی اردو پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قاتل نے شاہد کو قتل کرنے کے بعد ایک سرکاری افسر کو فون کرتے ہوئے کہا کہ سر میں نے آپ کے کہنے پر شاہد لُنڈ کو قتل کردیا، اب آپ مجھے تحفظ دیں۔
شاہد لُنڈ پچھلے 15 سال سے سندھ اور پبجاب کے کچے میں خوف کی علامت بنا ہوا تھا۔ وہ پہلے اغواکاروں کی سہولت کاری کرتا تھا۔ مغویوں کی پہریداری کرتا اور ان کے ورثاء سے پیسوں کی وصولی کے کام سرانجام دیتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ خود سینئر ہوگیا۔ بڑے ڈاکو مرتے گئے اور وہ اوپر آتا گیا۔
واقفانِ حال کے مطابق وہ 2022ء میں اپنے بڑے بھائی خدا بخش لُنڈ کے مارے جانے کے بعد بلا شراکتِ غیرے کچے کا سب سے بڑا ڈاکو بن گیا تھا۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق اس کے اوپر 35 کیسز تھے اور محکمہ داخلہ نے اس کے سر کی قیمت 1 کروڑ روپے مقرر کر رکھی تھی۔
پولیس نے قاتل اور شاہد لُنڈ کے درمیان پیدا ہونے اختلافات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اسے شاہد کے خلاف استعمال کیا۔ قاتل کو یقین دلایا گیا کہ اگر وہ شاہد کو قتل کردے گا تو اُسے نہ صرف تحفظ اور انعامی رقم سے نوازا جائے گا بلکہ اس پر قائم 15 سے زائد مقدمات بھی ختم کردیے جائیں گے۔
بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ میں بتلایا گیا ہے، دلچسپ امر یہ ہے کہ راجن پور پولیس ایک جانب تو شاہد لُنڈ کی اپنے ہی ساتھی کے ہاتھوں ہلاکت کی تصدیق کر رہی ہے وہیں شاہد لُنڈ کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کا ایک الگ مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔ یہ دونوں باتیں متضاد ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے شاہد لُنڈ سوشل میڈیا کا استعمال بھی کر رہا تھا اور عوام میں قدرے مقبول بھی ہوگیا تھا۔ وہ کبھی کبھی ٹک ٹاک، فیسبک اور یوٹیوب پر اپنی ویڈیوز اپلوڈ کیا کرتا تھا۔ اس کے کونٹینٹ میں مذہبی موضوعات شامل ہوتے تھے اور وہ اپنی ویڈیوز میں بانی پی ٹی آئی کو پسند کرتا تھا۔