پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے موجودہ احتجاج نے ملکی سیاست کو گرم دیا ہے۔ اس احتجاج کے پیش نظر حالات کافی پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ مظاہرین کی بنیادی مانگ سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی اور فوری انتخابات کا انعقاد ہے۔
اس احتجاج کے پیش نظر اسلام آباد میں امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے رینجرز اور ایف سی کو خصوصی اختیارات دیے گئے ہیں۔ حکومت نے متعدد کارکنان کو حراست میں لے کر احتجاج کو پرامن رکھنے پر زور دیا ہے۔ تاہم ان اقدامات کے باوجود کشیدگی برقرار ہے۔
احتجاج کے باعث عوام کو شدید مسائل کا سامنا ہے۔ اہم سڑکوں کی بندش، انٹرنیٹ معطلی، اور سخت حفاظتی اقدامات نے شہریوں کی روزمرہ زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔ ان رکاوٹوں سے کاروباری سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں، جس سے معیشت پر منفی اثرات پڑنے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے پی ٹی آئی کے مظاہروں کو مسلح دہشت گردی کی کوشش قرار دیا۔ ان کے مطابق مظاہرین کے پاس جدید اسلحہ، آنسو گیس، اور ماسک جیسے آلات دیکھے گئے ہیں۔ انہوں نے پولیس اہلکاروں پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ احتجاج عوامی تحریک کے بجائے مجرمانہ سرگرمیوں میں تبدیل ہو چکا ہے۔
وزیراعلیٰ مریم نواز نے واضح کیا کہ ان کی پولیس غیر مسلح ہے اور تصادم سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک صوبے کی فورسز کا دوسرے صوبے پر حملہ قومی یکجہتی کے لیے خطرناک ہے۔ خیبر پختونخوا کے قافلوں کا راستے میں پولیس سے آمنا سامنا ہوا، جس کے نتیجے میں کشیدگی مزید بڑھ گئی۔
مظاہرین اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہیں، اور حکومت ان کی پیش قدمی روکنے کے لیے سخت اقدامات کر رہی ہے۔ تاہم، مظاہرین اپنی حکمت عملی کے مطابق احتجاج جاری رکھنے پر مصر ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار اس احتجاج کو سیاسی داؤ پیچ کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ سہیل وڑائچ اور دیگر کے مطابق، پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مذاکرات بہت محدود ہیں۔
یہ احتجاج سیاسی بحران کو مزید بڑھا رہا ہے۔ عوامی مشکلات، سکیورٹی خدشات، اور تصادم کے امکانات نے حالات کو نازک بنا دیا ہے۔ تمام فریقین کو اس مسئلے کا پرامن حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کی زندگی اور ملکی استحکام پر منفی اثرات کم ہوں۔