اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان تنازع اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد شروع ہوا، جب حزب اللہ نے اسرائیلی سرحدی علاقوں پر حملے کیے۔ یہ جھڑپیں شدت اختیار کر گئیں، جن میں لبنان اور اسرائیل کے سرحدی علاقوں کو شدید نقصان پہنچا اور ہزاروں افراد بے گھر ہوئے۔ حزب اللہ غزہ میں جنگ بندی سے پہلے اپنی کارروائیاں روکنے کو تیار نہیں تھی، جبکہ اسرائیل نے جوابی حملے جاری رکھے۔ یہ تنازع ایران اور اسرائیل کی کشیدگی کا عکاس ہے، جس کے حل کے لیے عالمی کوششیں جاری تھیں۔
آج بدھ کی صبح 4 بجے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان فائر بندی کا معاہدہ نافذ ہوگیا ہے۔ یہ معاہدہ امریکی صدر جو بائیڈن کی معاونت سے ہوا، جس کی مدت 60 دن مقرر کی گئی ہے اور اس کا مقصد مستقل جنگ بندی کو ممکن بنانا ہے۔ اس معاہدے کے بعد اسرائیل نے جنوبی لبنان پر اپنے حملے اور بیروت کی فضاؤں میں جاسوس طیاروں کی پروازیں روک دی ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ یہ معاہدہ ان کی فوج کو لبنان میں "آزادانہ کارروائی” کا موقع دے گا، جس سے غزہ میں حماس کو الگ تھلگ کرنے اور ایران پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد ملے گی۔ اسرائیل کی سیکیورٹی کابینہ نے اس معاہدے کی منظوری دی، جہاں 10 وزراء نے حمایت کی اور 1 نے مخالفت کی۔
بائیڈن کے مطابق، آئندہ 60 دنوں میں لبنانی فوج اور سیکیورٹی فورسز کو جنوبی لبنان کا کنٹرول سنبھالنا ہوگا، اور حزب اللہ کو دوبارہ دہشت گردی کا ڈھانچہ بنانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس دوران اسرائیل اپنی باقی فوج کو آہستہ آہستہ واپس بلا لے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر حزب اللہ یا کوئی اور معاہدے کی خلاف ورزی کرے تو اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہوگا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکرون نے اس معاہدے کو غزہ میں جنگ بندی کی امید قرار دیا۔ ان کے مطابق، لبنان میں فائر بندی سے غزہ کے عوام کے مسائل کم کرنے کا راستہ کھل سکتا ہے۔
حزب اللہ نے, جو غزہ کے لیے معاون محاذ کے طور پر اسرائیل کے خلاف لڑ رہی تھی، مذاکرات کی ذمہ داری لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری کو سونپ دی یے۔ یہ فیصلہ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی ایک اسرائیلی حملے میں ہلاکت کے بعد کیا گیا ہے۔
معاہدے پر عمل درآمد کے لیے پانچ رکنی کمیٹی بنائی گئی ہے، جس کی سربراہی امریکہ کرے گا، جبکہ اقوام متحدہ کی امن فوج (یونیفل)، فرانس، لبنان اور اسرائیل اس کے رکن ہوں گے۔
اسرائیل میں فائر بندی پر رائے منقسم ہے۔ ایک سروے کے مطابق 37 فیصد لوگوں نے حمایت کی، 32 فیصد نے مخالفت کی اور 31 فیصد نے کوئی رائے نہیں دی۔ وزیر قومی سلامتی اتمار بن غفیر نے اس معاہدے کو "تاریخی غلطی” قرار دیا ہے۔
اگر یہ معاہدہ کامیاب رہا تو اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ایک سال سے جاری لڑائی ختم ہو جائے گی، جس نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کیا تھا۔