برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کے سابق سیکرٹری خارجہ لارڈ ولیم ہیگ سخت مقابلے کے بعد 800 سالہ قدیم آکسفورڈ یونیورسٹی کے اگلے چانسلر منتخب ہو گئے ہیں۔ ہیگ، جو ٹوری پارٹی کے سابق رہنما بھی ہیں، نے چار دیگر شارٹ لسٹ کیے گئے امیدواروں کو شکست دی ہے۔
ووٹنگ کے چاروں راؤنڈز میں ہیگ آکسفورڈ یونیورسٹی کے عملے اور سابق طلباء کے آن لائن بیلٹ باکس میں سرفہرست رہے۔ گریو کو پہلے ناک آؤٹ کیا، اس کے بعد مینڈیلسن، پھر رائل۔ فائنل راؤنڈ میں ہیگ نے 12,609 ووٹ حاصل کیے جو کہ رنراَپ Angiolini سے 1,603 زیادہ تھے۔
واضح رہے کہ ہیگ شروع سے ہی سب سے آگے تھے۔ انھوں نے یہ طے کرلینے کے بعد کہ اب وہ صرف آکسفورڈ کی ہی نوکری کریں گے، چانسلرشپ کے لیے زبردست مہم چلائی تھی۔ وہ یہ اعلان کرچکے تھے کہ وہ دوبارہ کبھی ہاؤس آف کامنز کا الیکشن نہیں لڑیں گے۔ وہ شروع سے ہی آکسفورڈ کی چانسلرشپ کے لیے بہت سنجیدہ تھے۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان جو کہ بہت سے کیسوں میں مطلوب ہونے کی وجہ سے اڈیالہ جیل میں قید ہیں، نے بھی آکسفورڈ کی چانسلرشپ کے لیے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے۔ لیکن کاغذات کی چھان بین کے دوران ہی انھیں الیکشن کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا تھا۔
لارڈ ولیم ہیگ نے آکسفورڈ کا چانسلر منتخب ہونے کے بعد کہا کہ وہ اپنی 10 سالہ تقرری کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا اعزاز سمجھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کا "دل اور روح آکسفورڈ میں ہے”۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ "اگلی دہائی میں آکسفورڈ میں وہ کچھ ہوگا، جو پچھلی کسی دہائی میں نہیں ہوا۔
اپنے انتخابی منشور میں، ہیگ نے آزادی اظہار کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ اور اپنے مستقبل کے کردار کے بارے میں مزید کہا تھا کہ : میں نے بہت سے مقاصد کے لیے بڑے اہداف حاصل کیے ہیں، تقریر کرنا میری فطرت میں شامل ہے اور میں مہذب لباس پہننے کا مخالف بھی نہیں ہوں۔ ہمیں اپنی تاریخ کو یاد رکھتے ہوئے جدیدیت کو اپنانا چاہیے۔ شاید ان کا اشارہ اسلامی لباس پہننے اور بولنے کی آزادی کی طرف تھا۔