پاکستانی حکومت نے 2030 تک ملک میں 30 فیصد الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کا ہدف مقرر کیا ہے، جس کا مقصد ماحولیاتی آلودگی کم کرنا اور درآمدی ایندھن کے اخراجات میں کمی لانا ہے۔ تاہم، مقامی سطح پر اب تک صرف دو الیکٹرک گاڑیاں، ہونری وی اور سیرس تھری، متعارف کروائی گئی ہیں۔
سیرس تھری مکمل طور پر بجلی سے چلنے والی کار ہے جس میں 50 کلو واٹ آور کی لیتھیئم آئن بیٹری نصب ہے۔ یہ ایک بار مکمل چارج پر 400 کلومیٹر کی رینج فراہم کرتی ہے اور اس کی ٹاپ اسپیڈ 160 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ جدید سیفٹی فیچرز، جیسے چھ ایئر بیگز، لین کیپ اسسٹ، اور 360 ڈگری کیمرے کے ساتھ، اس کی ممکنہ قیمت 85 لاکھ روپے تک ہو سکتی ہے۔ کمپنی اگلے سال ایک پلگ اِن ہائبرڈ گاڑی بھی لانچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ہونری وی ایک چھوٹی الیکٹرک ہیچ بیک ہے، جس کے دو ویریئنٹس میں 18.5 اور 29.9 کلو واٹ آور کی بیٹریاں نصب ہیں، جو بالترتیب 200 اور 300 کلومیٹر کی رینج فراہم کرتی ہیں۔ اس کی قیمت 40 سے 50 لاکھ روپے کے درمیان ہے اور یہ جدید سیفٹی فیچرز سے لیس ہے۔
ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے بنیادی ڈھانچے کی کمی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ سیرس پاکستان کے ایم ڈی عدیل عثمان کے مطابق، مقامی اسمبلنگ سے یہ مسئلہ آہستہ آہستہ حل ہو سکتا ہے۔ عدیل عثمان نے بتایا کہ روایتی گاڑیوں کے مقابلے الیکٹرک کار اسمبل کرنا زیادہ ’خطرناک‘ ہے کیونکہ ان میں سیفٹی کے لیے کہیں زیادہ چیزوں کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے، جیسے لیتھیئم سے بنی الیکٹرک بیٹریز، موٹرز اور وائرنگ وغیرہ۔
حکومت نے پانچ سالہ نیو انرجی وہیکل پالیسی کے تحت الیکٹرک گاڑیوں کی مقامی تیاری کو فروغ دینے کے لیے ٹیکس اور درآمدی ڈیوٹیز میں رعایت کی پیشکش کی ہے۔ وزیر صنعت و پیداوار کے مطابق، ملک بھر میں 10 ہزار ای وی چارجنگ اسٹیشنز قائم کیے جائیں گے اور الیکٹرک بائیکس پر سبسڈی فراہم کی جائے گی۔
مقامی اسمبلرز نے درآمدی گاڑیوں کو دی جانے والی رعایت پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، جس سے مقامی سرمایہ کاری متاثر ہو سکتی ہے۔ سیرس پاکستان کے سربراہ عدیل عثمان نے زور دیا ہے کہ مقامی صنعت کو فروغ دینے کے لیے پالیسی کو متوازن بنایا جائے تاکہ مقامی سرمایہ کاروں کو طویل مدتی فائدہ ہو سکے۔