صدر اسلامی جمہوری ایران ڈاکٹر مسعود پزکشیان نے چند گھٹے پہلے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ہمارا حجاب کا قانون جسے ہم نے نافذ کرنا ہے، مبہم ہے۔ ہمیں معاشرے کے اتفاق اور ہمدردی کو ٹھیس پہنچانے کے لیے کچھ نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں اس مسئلے پر اپنے لوگوں سے بات کرنی ہے اور مفاہمت پیدا کرنی چاہیے۔
تین سال قبل 2022ء میں ایک نوجوان خاتون مہسا امینی کو دوپٹہ ٹھیک طرح سے نہ اوڑھنے کی وجہ سے پولیس اہلکاروں نے پہلے زدوکوب کیا، بعد ازاں مزاحمت کرنے پر تشدد کیا، جس سے مبینہ طور پر اس کی ہلاکت ہوگئی تھی۔ جس کے نتیجے میں ملک بھر میں ایرانی تاریخ کے بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔
نئے ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزکشیان مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید علوم سے بھی آراستہ ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنے مذہبی سکالرز اور معاشرے کے درمیان پیدا ہوتی خلیج کو کم کرنا چاہیے۔ مکالمے کے ذریعے ممکنہ لچک پیدا ہوسکتی ہے۔ ہمیں قوانین میں ایسی ترمیم ضرور کرنی چاہیے، جو ممکن ہو۔
تاہم ایران میں رائج حکومتی نظام میں صدر کی بجائے، اصل طاقت سپریم لیڈر کے پاس ہوتی ہے جو کہ آخری خبریں آنے تک ایران کے روحانی لیڈر آیت اللہ خامنائی تھے لیکن بعض ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ طبیعت کی ناسازی کے باعث انھوں نے اپنے بیٹے کو اپنا جانشین مقرر کردیا ہے۔
ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزکشیان کے حجاب کے حوالے سے حالیہ بیان کو انٹرنیشنل میڈیا میں کافی سراہا گیا ہے۔ امریکہ، یورپ اور دیگر مختلف ممالک میں موجود ایرانی فیملیز اور عالمی مبصرین نے کہا ہے کہ ڈاکٹر مسعود پزکشیان کی سوچ سے ایران میں بہتری کی کچھ امید پیدا ہوئی ہے۔