امریکہ کے نو منتخب صدر ڈوبلڈ ٹرمپ نے حماس کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر 20 جنوری 2025ء تک اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو مشرق وسطی میں اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ پیر کے روز Truth Social ویب سائٹ پر ایک پوسٹ میں ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ :
"ہر کوئی ان یرغمالیوں کے بارے میں بات کر رہا ہے جنہیں مشرق وسطیٰ میں اتنے پرتشدد، غیر انسانی اور پوری دنیا کی مرضی کے خلاف رکھا جا رہا ہے۔ لیکن سب باتیں کر رہے ہیں، کوئی کارروائی نہیں کر رہا۔ انھوں نے لکھا کہ اگر یرغمالیوں کو 20 جنوری 2025 سے پہلے رہا نہیں کیا گیا، جب میں فخر کے ساتھ ریاستہائے متحدہ کے صدر کا عہدہ سنبھالوں گا، تو مشرق وسطیٰ میں سب کچھ جہنم بنادیا جائے گا۔ ذمہ داروں کو اس سے زیادہ سخت طریقے سے مارا جائے گا جتنا کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی طویل تاریخ میں شاید ہی کسی کو مارا گیا ہو”۔
ٹرمپ کی یہ دھمکی اس وقت سامنے آئی، جب اسرائیل کی جانب سے حماس کی زیر حراست عومر نیوترا نامی شہری کی وفات کی تصدیق کی گئی۔ نیوترا امریکا اور اسرائیل کی دُہری شہریت رکھتا تھا۔ اسرائیلی حکومت کے مطابق حماس نے ابھی تک اس کی لاش غزہ میں اپنے پاس رکھی ہوئی ہے۔
فلسطینی تنظیم حماس نے پیر کی شام اپنے پاس موجود یرغمال 33 اسرائیلی قیدیوں کی ہلاکت کا اعلان کیا ہے جن کے متعلق حماس کا کہنا ہے ان میں سے زیادہ تر افراد اکتوبر 2023 سے غزہ کی پٹی کے مختلف علاقوں میں رکھے گئے تھے جہاں اسرائیلی فوج کی بمباری سے وہ مارے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر کے حملوں میں حماس نے اسرائیل کے 251 افراد کو یرغمال بنایا تھا اور 1250 سے زائد فوجیوں اور سویلنز کو ہلاک کیا تھا۔ جن 251 کو یرغمال بنایا گیا تھا ان میں سے کُل 35 یرغمالی ہلاک ہوچکے ہیں۔ نومبر 2023ء میں ایک سمجھوتے کی بدولت تقریبا 105 قیدیوں کو رہا بھی کر دیا گیا تھا۔ ان میں 81 اسرائیلی، 23 تھائی اور ایک فلپینی شہری تھا۔
عرب مبصرین نے نو منتخب امریکی صدر کے حالیہ دھمکی آمیز بیان پر تعجب کا اظہار کیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے ٹرمپ ایک طرف کی بات کیوں کرتے ہیں؟ کیا انھیں 43،000 فلسطینیوں کی لاشیں نظر نہیں آتیں۔ وہ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے ہیں، اسرائیل کے نہیں۔ انھیں منصفانہ بات کرنی چاہیے۔