جب جب فلسطین اور اسرائیل کا مسئلہ سر اُٹھاتا ہے، ایک مخصوص لابی ایکٹو ہو جاتی ہے۔ جس میں خاص طور پر متعصب گروہوں کے سرگرم کارکنان کے علاوہ ایسے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جنھیں امت مسلمہ کی خیر و بھلائی کے ساتھ خوامخواہ کا بیر ہے۔
مخصوص ایجنڈے کے تحت جذباتی تقریروں، بدعاؤں اور مسلمان حکمرانوں کے خلاف پروپیکنڈوں کا نیا باب کھل جاتا ہے۔ اس کا مقصد مسلمانوں کے دلوں میں ان کے حکمرانوں سے انحراف پیدا کرنا، مسلم معاشروں میں کنفیوژن، بددلی، مایوسی پیدا کرنا اور مخصوص تنظیموں کے لیئے ہمدردی بڑھانا ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ ایسی سیاسی تقریریں جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمان معاشروں میں افراتفری اور انتشار پھیلائیں وہ نہ صرف اسلامی احکام کے خلاف ہیں بلکہ دشمنان اسلام کے عزائم کے عین مطابق ہیں۔ یہ تقاریر معصوم مسلمانوں کو گمراہ کر رہی ہیں۔
وہ معصوم جو یہ نہیں جانتے کہ عرب ممالک اسرائیل کے خلاف پانچ جنگیں لڑ چکے ہیں۔ 1948، 1956، 1967، 1973 اور 1982۔ ایک لاکھ عرب ان جنگوں میں مارے گئے ہیں۔ ساری جنگوں میں شکست ہوئی اور مصر، اردن، شام کی عرب سرزمین پر بھی اسرائیل قبضہ کر گیا۔ نہ ایران آیا نہ ترکی آیا اور نہ عسکری تنظیمیں آئیں۔ سب تماشائی بنے بیٹھے تھے۔ ورغلانے میں مصروف اور پروپیگنڈوں میں منہمک۔
آج جو سوال کر رہے ہیں کہ مسلمان حكمران اور افواج جوابی کارروائی کیوں نہیں کرتے؟ اُن کے لیئے عرض ہے کہ اسرائیل 100 نیوکلیئر وارہیڈز کے ساتھ ایک طاقتور ایٹمی قوت بن چکا ہے، جس کا وجود ایک بنیادی نظریۂ مزاحمت (Deterrence Doctrine) "سیمسن آپشن” (Samson Option) پر مبنی ہے۔ مطلب دشمن کے متوقع جارحیت کے جواب میں زبردست جوابی جوہری کارروائی کی استعداد رکھنا۔
جب فتح حاصل کرنے کا امکان کم ہو یا ناممکن ہو، تو ایسی صورت میں بقیہ مسلمانوں کی جان و مال عزت و آبرو کو محفوظ رکھنے کے لیے امن قائم رکھنا اسلامی فریضہ ہے۔
حالیہ اسرائیلی کارروائیاں جس میں حسن نصراللہ، اسماعیل هنیہ، یحییٰ سنوار ، نبیل کاوك ، صلح الاروری سمیت تین ہزار حماس اور حزب اللہ کے عسکریت پسند جان سے جا چکے ہیں۔ لوگوں کے ہاتھوں میں پیجر پھٹے ہیں، اس سے اسرائیلی انٹیلیجنس کی برتری اور مزاحمتی صلاحیت واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔
اگر جنگوں میں ہی حکمت ہوتی تو رسول اللّٰه ﷺ صلح حدیبیہ کیوں کرتے؟ ایک طرف 1400 احرام پہنے دنیا کے بہترین مسلمان تھے اور سامنے خالد بن ولید 200 کفار کی چھوٹی سی فوج لے کر آۓ۔ اُن 1400 بہترین مسلمانوں میں اللّٰه کے محبوب رَسُول ﷺ موجود تھے، حضرت ابو بکر صدیقؓ , حضرت عمر فاروقؓ ، حضرت عثمانؓ بن عفان اور حضرت علیؓ بن طالب بھی موجود تھے۔ عمرہ کی نیت تھی۔ پھر جہاد کا اعلان کیوں نہ کیا گیا؟ کیا آج کے مسلمانوں میں صحابہ سے زیادہ قرآن کریم کی سمجھ، غیرت، حکمت اور دلیری ہے؟
حدیبیہ اسلامی تاریخ کا ایک شاندار سبق اور رسول اللّٰه ﷺ کی دور اندیشی تھی۔ پھر جب مکّہ فتح ہوا تو بغیر جنگ کے مسلمان مکّہ میں داخل ہوئے۔
اسلام میں خوارج تنظیموں کی فتنہ لڑائیوں اور مسلم ممالک کی افواج کے جہاد میں واضح فرق ہے۔
ملکوں کی افواج حکمران وقت کے ماتحت، مُتحد، بامقصد اور جوابدہ ہوتی ہیں۔ دوسری جانب چند خارجی تنظیمیں ڈالرز، خفیہ عناصر اور عالمی مفاد کے لئے جنگیں لڑتی ہیں، اور مسلمانوں کے جذبات اور جان کو اپنے مالی، سیاسی اور نظریاتی عزائم کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اور وہ کسی کو جوابدہ بھی نہیں ہوتیں۔ جو کیا سو کیا۔ نہیں کیا تو نہیں کیا۔ آج پاکستان سمیت بہت سے مسلمان ممالک کو ایسے چیلنجز کا سامنا ہے۔
عرب علماء آج سے نہیں، 50 سال سے خوارج تنظیموں اور ان کے عزائم سے خبردار کر رہے ہیں۔ خوارج جنگجو اور عسکریت پسند تنظیمیں مسلمان ملكوں کو دانستہ جنگوں میں دھکیلتی ہیں، تباہی اور بربادی کی طرف لے کر جاتی ہیں۔ خود کو ہیرو باور کرواتی ہیں اور مسلمان حکمرانوں کو مرتد و منحرف قرار دیتی ہیں۔
جارحانہ جہاد کا اول اصول حُکمران وقت کا جہاد لیجسلیٹ (legislate) کرنا ہے ۔ اگر وہ نہ کرے تو حکمت ہے اور مسلمانوں پر تابعداری فرض ہے۔ حاکم کی اطاعت لازم ہے ۔ ایک نہیں کئی صحیح احادیث ہیں۔ حُکمران جذبات سے نہیں بلکہ انٹیلیجنس، عقل و فہم، دور اندیشی، حکمت اور افواج کی صلاحیت اور مسلمانوں کے زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر سوچتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے جان مال آبرو کے محافظ ہوتے ہیں ۔
ہاں اگر مسلمانوں پر اسرائیل کی طرح کافروں کی خبیث حکومت مسلمانوں پر قابض ہو تو بغاوت کی اجازت صرف اسی صورت میں ہے جب مسلمان اُس حکمران کو ہٹانے یا ہرانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
7 اکتوبر نے دنیا پر واضع کر دیا کہ حماس ، ایران ، حزب اللہ اور عسکری تنظیمیں اسرائیل کے سامنے کمزور ترین تھیں۔ ایک غیر فہم جذباتی فیصلے نے اور ناقص انتظامات نے 43,000 مظلوم فلسطینی شہید اور 90،000 سے اُوپر زخمی کر دیئے ۔ دوسری جانب صرف 1400 اسرائیلی مارے گئے اور 5000 کے قریب زخمی ہوئے۔ شعبدہ بازی اور شعلہ بیانی سے زیادہ اہمیت نہیں تھی حماس ، حزب اللہ اور ایران کی۔ ایسا حملہ کیا ہی کیوں، جس میں شکست صاف ظاہر اور یقینی تھی؟ دنیا بھر کے مسلمان مُلکوں اور OIC سے مشاورت کیوں نہیں کی گئی؟
اس حملے کے بعد اسرائیل نے فلسطینیوں کی جو نسل کُشی کی اور خون بہایا وہ گناہ کس کے سر؟ جوابی اسرائیلی حملوں نے یکسر زمینی حقائق بدل ڈالے ہیں۔ کوئی جوابدہ ہے؟ کوئی نہیں ہے۔ کیوں کوئی نہیں ہے؟ کیونکہ تنظیمیں کبھی جوابدہ نہیں ہوا کرتیں۔
یہ جتنے سوشل میڈیا پر آج گالیاں دے رہے ہیں یہ سارے اخوان المسلمین کے سیاسی کارکن ہیں جو کفار کی سرزمینوں میں رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد سارے مسلمان ملکوں کو امریکہ اسرائیل اور کفار سے دانستہ لڑوانا ہے۔ کون جیتے گا آج کے ایٹمی دور میں صاف ظاہر ہے! آج دو لاکھ مسلمان عذاب میں ہیں، کل دو کروڑ مسلمانوں پر عذاب آئے گا۔ اس عمل سے نہ امام مہدی علیہ السلام جلدی آئیں گے۔ نا قیامت جلدی آئے گی اور نہ ہی ایسے کاموں سے مسلمان سرخرو ہوں گے۔ کیونکہ اسلامی پیشنگوئیاں اور مستقبل کے واقعات اپنے وقت پر ہی ہوں گے۔ اللّٰه ربّ العزّت کے حکم سے ہوں گے۔ کوئی انسانی منصوبہ بندی اُس عمل کو جلدی پائے تکمیل تک نہیں لے جا سکتی۔
دوسری جانب مملکت سعودیہ نے ہمیشہ کی طرح سب سے بڑھ کر فلسطینیوں کے لیے آنلائن فنڈ ریزنگ کی۔ 7 اکتوبر کے بعد ایک مہینے میں 158$ ملین ڈالر جمع کیے۔ سعودی بادشاہ ملک سلمان بن عبد العزیز آل سعود نے 30 ملین ریال اور سعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان بن عبد العزیز آل سعود نے 20 ملین ریال اپنے پاس سے دیئے۔ باقی دنیا کے مسلمان الزام ترشی کے علاوہ کیا کر رہے ہیں؟
تاریخ گواہ ہے سعودی عرب 1935 سے اعلانیہ فلسطینی ریاست کے لیئے جدوجہد کر رہا ہے۔ 1943 میں مملکت نے یروشلم فلسطین میں اپنا قونصل خانہ قائم کیا اور 1947 میں سعودی عرب نے اقوام متحدہ میں فلسطین کی تقسیم کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ پچھلے 20 سال سے سعودیہ فلسطین کو روز ایک ملین ڈالر خرچہ دیتا ہے اور فلسطینی بجٹ کے لیے مالی امداد کئی ملین ڈالرز میں کرتا ہے۔
دوسری طرف ایران اور اس کی مختلف پراکسی تنظیموں کے کیا مقاصد ہیں؟ حملے فلسطینیوں پر کرواتے ہیں اور گالیاں عربوں کو پڑواتے ہیں۔ مسلمانوں کا دل حرمین الشریفین کے حکمرانوں کی طرف سے خراب کراتے ہیں۔
آج پھر ایک کوفہ سجا ہے۔ آج پھر اپنوں کے بھیس میں، کچھ دشمن گھات لگا کر بیٹھے ہیں۔ پہلے کربلا میں سورج غروب کیا تھا اور آج فلسطین میں جال بچھائے بیٹھے ہیں۔ مسلمان اقوام اور مُسلم ممالک سمجھداری، اتحاد، دور اندیشی اور فہم و فراست سے فیصلہ کریں۔
الحَمدُ اللّٰه ربّ العالمین ہم حرمین الشریفین، حرمین کے حکمرانوں، رسول اللّٰه ﷺ کی قوم، صحابہ کی نسلوں اور صالح عُلماء کے ساتھ متحد کھڑے ہیں ۔ اللّٰه ربّ العزّت مسلمانوں کو سرخرو کرے اور حکمت نصیب کرے۔ آمین
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا