سابق شامی صدر بشار الاسد کے ملک چھوڑنے کی تفصیلات میں ایک نیا موڑ سامنے آیا ہے، جس کے مطابق ان کا فرار روس کے سفارتی تعاون کے ذریعے ممکن ہوا۔ غیر ملکی ذرائع کے مطابق، روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بشار الاسد کی روانگی کے لیے ترکی اور قطر کے ساتھ رابطہ کیا اور مخالف گروپوں کو اس معاملے میں مداخلت سے باز رکھنے میں کردار ادا کیا۔
روسی حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ بشار الاسد کے فرار کے دوران ان کے طیارے کو نہ روکا جائے اور نہ ہی کسی قسم کا خطرہ لاحق ہو۔ رپورٹس کے مطابق، بشار الاسد آخری لمحات تک اپنی فوج کو یقین دلاتے رہے کہ روس ان کی مدد کے لیے جلد پہنچے گا، لیکن پس پردہ وہ اپنے فرار کی تیاریوں میں مصروف تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ بشار الاسد نے ہفتے کے روز اپنی میڈیا ایڈوائزر کو تقریر تیار کرنے کے لیے بلایا، لیکن اس کے بعد وہ صدارتی محل سے غائب ہوگئے۔ اپنی روانگی کو انتہائی خفیہ رکھتے ہوئے، انہوں نے سینئر افسران اور یہاں تک کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی اس منصوبے سے لاعلم رکھا۔
ان کے بھائی ماہر الاسد، جو فوج کے ایک خصوصی بریگیڈ کے کمانڈر تھے، کو بھی فرار کے منصوبے کی خبر نہ دی گئی۔ ماہر الاسد بعد میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے عراق پہنچے اور وہاں سے روس روانہ ہوئے۔
بشار الاسد کا طیارہ پہلے دمشق سے اڑا اور لاذقیہ کے روسی فضائی اڈے پر اترا، جہاں سے انہیں ماسکو پہنچایا گیا۔ مزید رپورٹس کے مطابق، ان کی اہلیہ اسما الاسد اور تین بچے پہلے ہی ماسکو میں موجود تھے اور ان کے فرار کی تیاری پہلے سے کی جا چکی تھی۔ یہ واقعہ شامی حکومت کے خاتمے کے بعد ایک نئے سیاسی بحران کا اشارہ دیتا ہے