اردن کے شہر عقبہ میں آج امریکہ، ترکیہ، یورپی یونین اور عرب ممالک کے سفارتکاروں نے شام کے مستقبل پر تبادلہ خیال کے لیے اجلاس منعقد کیا۔اس اجلاس میں شام، روس اور ایران کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔
امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے اجلاس میں شام میں ایسا سیاسی عمل یقینی بنانے پر زور دیا جو اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی گیر پیڈرسن سے ملاقات میں اس وقت کو شام کے لیے “موقع اور چیلنج” قرار دیا۔ عرب ممالک نے ترکیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسا سیاسی عمل سپورٹ کرے جو شام کی فرقہ وارانہ تقسیم کو روک سکے۔
ترکیہ، جو طویل عرصے سے شامی اپوزیشن کی حمایت کر رہا ہے، اب دمشق کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ ترک وزیرِ خارجہ حکان فیدان نے اعلان کیا کہ ترکیہ کا سفارت خانہ دمشق میں دوبارہ کام شروع کرے گا۔ دوسری طرف، ترکیہ اور امریکہ کے درمیان تنازع اس وقت بھی موجود ہے کیونکہ ترکیہ شامی ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کی مخالفت کرتا ہے، جو داعش کے خلاف امریکی اتحادی ہیں۔
ایس ڈی ایف شام کے اہم تیل کے ذخائر پر قابض ہے اور اس کی قیادت وائی پی جی ملیشیا کر رہی ہے، جسے ترکیہ کالعدم پی کے کے کا حصہ تصور کرتا ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ نے انقرہ کے دورے کے دوران زور دیا کہ ایس ڈی ایف کو داعش کے جنگجوؤں کو رکھنے والے کیمپوں کی حفاظت پر توجہ دینی چاہیے۔ ترک حکام نے اس سے اتفاق کیا، لیکن ترک وزیرِ خارجہ نے کہا کہ وائی پی جی کا خاتمہ ترکیہ کا اسٹریٹجک ہدف ہے۔
اجلاس میں اردن، سعودی عرب، عراق، لبنان، مصر، متحدہ عرب امارات، بحرین اور قطر کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی، جبکہ عرب ممالک نے الگ سے ملاقات کر کے شام کے لیے مشترکہ حکمت عملی پر بات چیت کی۔ امریکہ اور اس کے اتحادی شام کے مستقبل کے لیے سیاسی اور انسانی بحران کے مسائل پر توجہ دے رہے ہیں۔
یہ اجلاس ایسے وقت میں ہوا جب شام میں نئی حکومت کے قیام کے لیے راہیں ہموار کی جا رہی ہیں، لیکن شامی نمائندوں کی غیر موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ ملک کا مستقبل اب بھی غیر یقینی کا شکار ہے