امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے کوششیں تیز کرنے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر جو بائیڈن کے عہدہ چھوڑنے سے پہلے اس معاملے کو حتمی شکل دینا ضروری ہے۔
جنوبی کوریا میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بلنکن نے کہا کہ امریکہ اگلے دو ہفتوں میں جنگ بندی معاہدہ مکمل کرنے کا خواہاں ہے۔
یہ کوششیں اس وقت ہو رہی ہیں جب حماس کے ایک اہلکار نے رائٹرز کو بتایا کہ گروپ نے 34 یرغمالیوں کی فہرست کو منظور کر لیا ہے جنہیں ممکنہ معاہدے کے تحت رہا کیا جا سکتا ہے۔
اس فہرست میں خواتین فوجی، بزرگ شہری، خواتین اور بچے شامل ہیں۔ تاہم، حماس کا کہنا ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی صرف اس صورت میں ممکن ہے جب اسرائیل جنگ ختم کرے اور اپنی افواج غزہ سے واپس بلائے۔
دوسری جانب، اسرائیل کا موقف ہے کہ حملے اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک تمام یرغمالیوں کو رہا نہ کیا جائے اور حماس کو ایک جنگجو اور حکومتی قوت کے طور پر ختم نہ کر دیا جائے۔
اسرائیل نے قطر میں مذاکرات کے لیے اپنے اہلکار بھیجے ہیں، جہاں قطر اور مصر ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ خبروں کے مطابق موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیہ بھی ان مذاکرات میں شامل ہو سکتے ہیں۔
اس دوران، نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر 20 جنوری تک یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو مشرقِ وسطیٰ میں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ تاریخ غیر رسمی طور پر جنگ بندی کے لیے ایک ڈیڈ لائن کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک تقریباً 46,000 فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ یہ حملے اس وقت شروع ہوئے جب اکتوبر 2023 میں حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیلی علاقے پر حملہ کیا، جس میں 1,200 افراد ہلاک اور 250 سے زائد یرغمال بنا لیے گئے۔
سخت سرد موسم نے بے گھر فلسطینیوں کی حالت مزید خراب کر دی ہے۔ حال ہی میں سردی سے ایک 35 دن کے بچے کی موت واقع ہوئی، جو پچھلے دو ہفتوں میں سردی سے مرنے والا آٹھواں شخص ہے۔ اس کے علاوہ، ایک اسکول پر اسرائیلی فضائی حملے میں 40 افراد زخمی ہوئے، جو بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہ کا کام کر رہا تھا۔
مغربی کنارے میں حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔ ایک حملے میں بندوق برداروں نے ایک کار اور بس پر فائرنگ کی، جس سے تین اسرائیلی ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے۔