ریاض : مشرق وسطیٰ اور یورپ کے اعلیٰ سفارت کار اتوار کو شام کے حوالے سے بات چیت کے لیے سعودی دارالحکومت ریاض پہنچ رہے ہیں، عالمی طاقتیں بشار الاسد کے خاتمے کے بعد شام میں استحکام پر زور دے رہی ہیں۔
ایک سعودی اہلکار نے ہفتے کے روز دار نیوز کو بتایا کہ اتوار کو ہونے والی بات چیت دو سیشنوں میں ہو گی : پہلا سیشن عرب حکام کو اکٹھا کرے گا جب کہ دوسرے سیشن میں ترکی، فرانس، یورپی یونین اور اقوام متحدہ سمیت دیگر اہم ممالک شامل ہوں گے۔
شام کے نئے رہنما احمد الشرع ، جنہوں نے اسد کا تختہ الٹنے والے اتحاد میں اہم گروپ کی قیادت کی تھی، پابندیوں میں نرمی کے لیے زور دے رہے ہیں۔
امریکہ اور یورپی یونین سمیت مغربی طاقتوں نے اسد کی حکومت پر 2011 میں حکومت مخالف مظاہروں کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن پر پابندیاں عائد کیں، جس نے خانہ جنگی کو جنم دیا تھا۔
13 سال سے زائد عرصے سے جاری تنازعے میں نصف ملین سے زیادہ شامی موت کے منہ میں جا چکے ہیں، انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا ہے اور لوگ غریب ہو گئے ہیں، جب کہ لاکھوں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔
یورپی یونین کے ایک اعلیٰ سفارت کار نے جمعہ کو کہا کہ اگر شام کے نئے حکمران اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے والی ایک جامع حکومت کی تشکیل کے لیے اقدامات کرتے ہیں تو 27 ملکی بلاک یعنی یورپی یونین، پابندیاں ہٹانا شروع کر سکتا ہے۔
سعودی عرب نے 2012 میں اسد کی حکومت کے ساتھ تعلقات منقطع کر لیے تھے اور طویل عرصے سے ان کی بے دخلی کی کھل کر حمایت کی تھی۔ لیکن 2023 میں اس نے عرب لیگ کے اجلاس کی میزبانی کی جس میں اسد کو دوبارہ علاقائی سطح پر خوش آمدید کہا گیا۔
جبکہ حالیہ تبدیلی کے بعد اس ماہ سعودی عرب نے شام کو زمینی اور ہوائی جہاز کے ذریعے خوراک، پناہ گاہ اور طبی سامان بھیجا ہے۔
ریاض اب اس موضوع پر بات چیت کر رہا ہے کہ اس سے آگے شام کی حمایت کیسے کی جائے؟
واشنگٹن میں عرب خلیجی ریاستوں کے انسٹی ٹیوٹ کی نان ریذیڈنٹ فیلو اینا جیکبز نے کہا ہے کہ ” یہ سربراہی اجلاس یہ پیغام دیتا ہے کہ سعودی عرب شام کی بحالی کی حمایت کے لیے علاقائی کوششوں کو مربوط کرنے کی قیادت کرنا چاہتا ہے”۔
لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ سعودی عرب اس کوشش کے لیے کتنا وقت اور کتنے وسائل صرف کرے گا؟ اور شام پر لگی بہت سی پابندیوں کے ساتھ یہ کیسے ممکن ہوگا؟
مبصرین کا یہ خیال بھی ہے سعودی عرب شام کی مدد تو کرنا چاہتا ہے لیکن وہ ایک ذمہ دار ملک ہونے کی حیثیت سے یورپ اور امریکہ کو اعتماد میں بھی لینا چاہتا ہے۔
سعودی اہلکار نے دار نیوز کو بتلایا کہ اتوار کو ہونے والی یہ ملاقاتیں، اسد کے بعد اردن میں ہونے والی بات چیت کے تسلسل کی نمائندگی کرتی ہیں۔
عقبہ میں مذاکرات کے بعد، سفارت کاروں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ شام میں قیادت کی منتقلی کو شفاف عمل کے ذریعے مکمل کیا جانا چاہیے تاکہ ایک جامع، غیر فرقہ وارانہ اور نمائندہ حکومت تشکیل دی جا سکے۔
بیان میں "انسانی حقوق کے احترام اور دہشت گردی” کا مقابلہ کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا، تمام فریقین سے شام پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
ترکی کے وزیر خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ وہ اتوار کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔ عراق کے اعلیٰ سفارت کار بھی اس اجتماع کے لیے ریاض میں تھے اور دار نیوز کے نمائندوں نے جرمنی کی وزیر خارجہ کو بھی کانفرنس کے مقام پر دیکھا ہے۔
امریکی انڈر سیکریٹری آف اسٹیٹ جان باس بھی اس اجلاس میں شرکت کرنے والے ہیں، جو ترکی میں ہونے والے مذاکرات سے واپس آ رہے ہیں جس میں جزوی طور پر "علاقائی استحکام کی اہمیت، شام کو دہشت گردی کے اڈے کے طور پر استعمال ہونے سے روکنے اور داعش گروپ کی پائیدار شکست کو یقینی بنانے” پر غور کیا گیا تھا۔