سعودی عرب نے افغانستان کی نئی طالبان حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات کو آگے بڑھاتے ہوئے کابل میں اپنے سفارتی مشن کا آغاز کردیا ہے۔ کابل میں تعینات خادم الحرمین الشریفین کے سفیر فیصل الباقمی نے اتوار کے روز افغان وزیر خارجہ مولوی امیر متقی سے ملاقات کی اور دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا۔
واضح رہے کہ یہ ملاقات افغانستان میں سعودی سفارت خانہ کھلنے کے ایک ہفتے بعد ہوئی ہے۔
افغانستان کی وزارت خارجہ نے سفارتی تعلقات کی بحالی کے سعودی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ اس ملاقات میں سعودی عرب کے سفارتی مشن کے نائب سربراہ مشعل مطلق الشماری بھی شریک ہوئے۔
ملاقات میں دو طرفہ تعلقات زیر بحث آئے۔ افغان وزارت خارجہ کے ترجمان حافظ ضیا احمد کے مطابق افغانستان اور سعودی عرب کے درمیان مختلف شعبوں میں تعلقات کے فروغ کے علاوہ دلچسپی کے دیگر موضوعات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
اس دوران سعودی عرب میں مقیم افغان شہریوں کو سفارتی خدمات کی فراہمی کے علاوہ دوطرفہ طور پر موجود مواقع سے فائدہ اٹھانے کے امور اور باہمی تعاون میں فروغ جیسے مسائل زیر بحث آئے۔
اس ملاقات میں افغان وزیر خارجہ نے افغانستان کے حج کوٹے میں اضافے اور دو طرفہ وفود کے تبادلے پر زور دیتے ہوئے افغانستان اور سعودی عرب کے درمیان برادرانہ تعلقات کو آگے بڑھانے پر سعودی حکومت کے فیصلوں کی تائید کی۔
واضح رہے کہ افغانستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ تاہم اس میں وقت کے ساتھ ساتھ ضرورت کے مطابق تعطل آتا رہا ہے۔ 1932 میں جب ریاض میں سعودی حکومت قائم ہوئی تھی، تب سے اس کے افغانستان کے ساتھ تعلقات چلے آ رہے ہیں۔
حالیہ تین سالوں میں اگرچہ سعودی عرب نے اپنا سفارتی عملہ افغانستان سے واپس بلا لیا تھا لیکن کنگ سلمان ریلیف سینٹر کے ذریعے افغان عوام کے لیے سعودی عرب کے امدادی پراجیکٹس جاری رہے تھے۔
ریاض کی طرف سے افغانستان کے عوام کے لیے انسانی بنیادوں پر صحت ، تعلیم، پینے کے صاف پانی، کھانا، کپڑے، خیمے اور فوڈ سیکیورٹی کے شعبوں میں خدمات ترجیحاً موجود اور جاری ہیں۔