قطر کے وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ اسرائیل اور حماس نے بدھ کے روز غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی پر اتفاق کرلیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ انہیں امید ہے کہ یہ معاہدہ لڑائی کے مستقل خاتمے کی راہ ہموار کرے گا۔ ثالثوں کی جانب سے یہ کہنے کے بعد کہ ایک امن معاہدہ طے پا گیا ہے، اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے خبردار کیا کہ فریم ورک میں کچھ مسائل "حل طلب” ہیں، امید ظاہر کی گئی ہے کہ اس سلسلے کی مزید تفصیلات کو آج رات حتمی شکل دے دی جائے گی۔
اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ، جو بڑے پیمانے پر اس امن معاہدے میں اہم اور مرکزی کردار کے حامل ہیں نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ حماس کے 7 اکتوبر 2023 کے حملے کے دوران پکڑے گئے یرغمالیوں کو واپس لانے کے لیے ضروری اقدام تھا۔ قطری وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم الثانی نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ جنگ بندی کا اطلاق اتوار سے ہوگا، یعنی ابھی اس معاہدے پر کچھ کام ہونا باقی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کی پٹی میں دو متحارب قوتیں، قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے کے لیے ایک معاہدے پر پہنچ چکی ہیں۔ اور (ثالثوں نے) دونوں فریقوں کے درمیان مستقل جنگ بندی تک پہنچنے کی امید پر جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ اس معاہدے کے پہلے مرحلے میں حماس 33 اسرائیلی اسیروں کو رہا کرے گی، جن میں شہری خواتین، بچے اور بوڑھے افراد بھی شامل ہی۔ جبکہ اسرائیل بھی ان کے بدلے 33 فلسطینوں کو رہا کرے گا جو اسرائیل میں قید ہیں۔
واضح رہے کہ تل ابیب میں ہزاروں مظاہرین نے اپنی حکومت سے یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف غزہ اور فلسطین میں رات جیسے ہی معاہدے کی خبر پھیلی، غزہ بھر میں ہزاروں افراد نے جشن منایا۔ پناہ گزینوں کی بستی میں رہنے والے 45 سالہ رندا سمیع نے کہا کہ میں یقین نہیں کر سکتا کہ ایک سال سے زیادہ کا یہ ڈراؤنا خواب آخر کار ختم ہونے والا ہے۔ ہم نے بہت سارے لوگوں کو کھو دیا ہے بلکہ ہم نے سب کچھ کھو دیا ہے۔
حماس نے کہا ہے کہ یہ جنگ بندی ہمارے عظیم فلسطینی عوام کی ثابت قدمی اور غزہ کی پٹی میں 15 ماہ سے زیادہ کی ہماری بہادرانہ مزاحمت کا نتیجہ ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں لڑائی کے خاتمے کے لیے دباؤ بڑھ گیا تھا، کیونکہ ثالث قطر، مصر اور امریکہ نے ایک معاہدے کو مستحکم کرنے کی کوششیں تیز کر دی تھیں۔
بدھ کو قطر کے شیخ محمد نے کہا کہ تینوں ممالک قاہرہ میں قائم ایک باڈی کے ذریعے جنگ بندی کے نفاذ کی نگرانی کریں گے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ وہ اس پیشرفت پر "پرجوش” ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ "غزہ میں لڑائی کو روک دے گا۔ فلسطینی شہریوں کے لیے انتہائی ضروری انسانی امداد میں اضافہ کرے گا، اور یرغمالیوں کو ان کے اہل خانہ کے ساتھ ملائے گا۔
ہہ معاہدہ غزہ کی تاریخ کی سب سے مہلک جنگ کے خاتمے کے لیے مہینوں کی ناکام کوششوں کے بعد اور بائیڈن کے جانشین ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے سے کچھ دن پہلے طے پا رہا ہے۔ ٹرمپ نے حماس کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے باقی قیدیوں کو آزاد نہیں کیا، تو یہ حماس سمیت پورے مشرق وسطی کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ حالیہ مذاکرات میں امریکہ کی آنے والی انتظامیہ اور سبکدوش ہونے والی انتظامیہ، دونوں کے ایلچی موجود تھے۔
ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جنگ بندی کا معاہدہ نومبر میں ہماری تاریخی فتح کے نتیجے میں ہی ہو سکتا تھا۔ نومنتخب صدر نے مزید کہا کہ وائٹ ہاؤس اسرائیل اور ہمارے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ غزہ دوبارہ کبھی حماس یا اس طرح کے دیگر گروپوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بنے۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل پر اب تک کا سب سے مہلک حملہ کرکے غزہ میں حالیہ جنگ کو جنم دیا تھا، جس کے نتیجے میں 1,210 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں اسرائیل کے بقول زیادہ تر عام شہری تھے۔ فلسطینی عسکریت پسندوں نے حملے کے دوران 251 افراد کو یرغمال بھی بنایا تھا، جن میں سے 94 اب بھی غزہ میں قید ہیں، جن میں سے 34 اسرائیلی فوج کے مطابق ہلاک ہو چکے ہیں۔
حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں اسرائیل کی انتقامی کاروائیوں میں 46,707 افراد شہید ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے غزہ میں فوری انسانی امداد کے داخلے کو تیز کرنے کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے معاہدے کی خبروں کا خیر مقدم کیا ہے۔ مصر کے سرکاری خبر رساں ادارے القاھرہ نے سیکورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ بین الاقوامی امداد کے داخلے کی اجازت دینے کے لیے مصر کے ساتھ غزہ کی سرحد پر رفح کراسنگ کو دوبارہ کھولنے کے لیے رابطہ کاری جاری ہے۔
مصر کے ایک اور سرکاری اخبار الاہرام نے بھی خبر دی ہے کہ رفح کراسنگ کھولنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔ مذاکرات کے پے در پے ادوار کے اہم نکات میں سے سب سے اہم، جن پر فریقین کے زیادہ تر تحفظات تھے، اسرائیلی فوجیوں کے غزہ سے انخلاء اور فلسطینی سرزمین تک انسانی امداد کی رسائی کو یقینی بنانا شامل ہیں۔
انروا، قوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزین ایجنسی جو اس ماہ کے آخر سے اپنی سرگرمیوں پر اسرائیلی پابندی کا سامنا کر رہی ہے، نے کہا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کو انتہائی ضروری امداد کی فراہمی جاری رکھے گی۔ نیتن یاہو، جس نے 7 اکتوبر کے حملے کا بدلہ لینے کے لیے حماس کو کچلنے کا عہد کیا تھا، نے علاقے میں جنگجو گروپ (حماس) کے لیے جنگ کے بعد کے کسی بھی کردار کی مخالفت کی ہے۔
اس امن معاہدے کا پوری دنیا میں خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب سمیت تمام جی سی سی ممالک، او آئی سی، عرب لیگ، پاکستان، یورپ اور ایشیائی ممالک نے اس معاہدے کو، سب سے اہم انسانی ذمہ داری اور مشترکہ علاقائی ضرورت قرار دیا ہے۔ تاہم ضروری ہے کہ 6 ہفتوں کے اس سیز فائر کو مستقل جنگ بندی میں بدلنے پر کام کیا جائے۔