ہفتے کی صبح کو تل ابیب میں ختم ہونے والے اسرائیلی کابینہ کے اجلاس سے منظوری کے بعد اس ڈیل کے تحت، چھ ہفتوں کی جنگ بندی اتوار سے نافذ العمل ہو گی۔ اگرچہ اس ڈیل کے متعلق بہت سے اہم سوالات باقی ہیں لیکن ڈیل بہر حال طے پا گئی ہے۔ 6 ہفتوں کے پہلے دورانیے میں رہا کیے جانے والے 33 یرغمالیوں کے نام بھی اس ڈیل میں شامل ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ "حکومت نے یرغمالیوں کی واپسی کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے”۔
یہ معاہدہ، جس کی پہلے سیکیورٹی کابینہ نے منظوری دے دی تھی، جمعے کو غیر متوقع تاخیر کے بعد سامنے آیا جس نے خدشہ پیدا کیا کہ اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ کے درمیان آخری لمحات کے اختلافات معاہدے کو ختم کر سکتے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی مخلوط حکومت کے دائیں بازو کے ارکان نے معاہدے کے خلاف ووٹ دینے یا حکومت چھوڑنے کی دھمکی دی تھی، جس سے ممکنہ طور پر تنازعہ کو ختم کرنے کے لیے کئی مہینوں کا کام پٹڑی سے اتر گیا تھا۔
اسرائیلی حکومت نے یروشلم کے وقت کے مطابق ہفتہ کی صبح 1 بجے کے بعد معاہدے کی منظوری کا اعلان کیا ہے، کابینہ کی چھ گھنٹے کی میٹنگ کے بعد اسے خاص طور پر یہودی سبت (یہودیوں کے لیے بابرکت دن) تک لایا گیا ہے، یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے اور جو اس وقت کی اہمیت کی عکاسی کرتا ہے۔
مصر کے سرکاری ذرائع نے کہا ہے کہ قاہرہ میں ایک دوسری میٹنگ میں مصر، قطر، امریکہ اور اسرائیل کے مذاکرات کاروں نے غزہ جنگ بندی کے اس معاہدے کو مستقل طور پر قابل عمل بنانے کے لیے، مشترکہ جد وجہد جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
قبل ازیں جمعہ کے روز اسرائیل کے صدر اسحاق ہرزوگ نے سکیورٹی کابینہ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ : "یہ اس بنیادی عزم کو برقرار رکھنے کے لیے ایک اہم قدم ہے جو ایک قوم اپنے شہریوں کے ساتھ رکھتی ہے۔”
نیتن یاہو کے سخت گیر قومی سلامتی کے وزیر نے جمعرات کو اعلان کیا تھا کہ اگر نیتن یاہو نے جنگ بندی کے معاہدے کی توثیق کی تو وہ حکومت چھوڑ دے گا، جس سے ممکنہ طور پر حکمران اتحاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس وزیر نے آخری لمحات میں دوسرے ارکان پارلیمنٹ سے بھی معاہدے کے خلاف ووٹ دینے کی درخواست جاری کی تھی۔
اس وزیر نے ایک ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ "ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ دہشت گرد (حماس) دوبارہ نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے، دوبارہ مارنے کی کوشش کریں گے”۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق بین گویر اور انتہائی دائیں بازو کے وزیر خزانہ بیزیل سموٹریچ نے معاہدے کے خلاف ووٹ دیا جبکہ دیگر وزراء نے معاہدے کے حق میں ووٹ دیا۔ ڈیوڈ امسالم، ایک وزیر جو سیکورٹی کابینہ کی ووٹنگ کا حصہ نہیں ہیں، نے ووٹنگ کے دوران مخالفت میں اپنا ہاتھ اٹھایا۔
اسرائیلی ہائی کورٹ نے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے لیے معاہدے کی منظوری کے 24 گھنٹوں کے بعد کا وقت مقرر کیا ہے، لیکن توقع کی جا رہی ہے کہ وہ حکومتی فیصلوں میں مداخلت نہیں کرے گی۔
معاہدے کے پہلے مرحلے کے میں جو کہ 42 دن تک جاری رہے گا، حماس نے اسرائیلی جیلوں میں قید سینکڑوں فلسطینیوں کے بدلے 33 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اسرائیلی ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ ان میں بچے، خواتین (بشمول فوجی خواتین) اور 50 سال سے زائد عمر کے مرد شامل ہیں۔
گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق رہائی کے لیے تیار کیے گئے فلسطینی قیدیوں میں سے تقریباً 100قیدی ایسے ہیں جو اسرائیل پر پر تشدد حملوں کی وجہ سے عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ دوسروں کو کم جرائم کے لیے قید کیا گیا ہے، کچھ ایسے ہیں جنھیں سوشل میڈیا پوسٹس کی وجہ سے یا انتظامی وجوہات کی وجہ سے حراست میں رکھا گیا ہے۔
ان لوگوں کے ناموں پر مشتمل ایک فہرست بھی زیر ترتیب ہے جسے اگلے چھ ہفتوں میں جاری کیا جائے گا، جمعہ کی صبح سے اہم اسرائیلی نیوز سائٹس پر کچھ فہرستیں گردش بھی کر رہی ہیں۔ توقع ہے کہ حماس پہلے دن رہا کیے جانے والے یرغمالیوں کے نام اس معاہدے کے نافذ العمل ہونے سے قبل شائع کر دے گی۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا ہے کہ فرانسیسی اسرائیلی شہری اوفر کالڈیرون اور اوہاد یاہلومی یرغمالیوں کے پہلے گروپ میں شامل ہیں جنہیں رہا کیا جا رہا ہے۔ اتوار کو تین اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کی توقع ہے، اس کے بعد ساتویں دن مزید چار، اور باقیوں کو ہر ہفتے کے اختتام پر رہا کیا جائے گا۔
جمعہ کو اسرائیل کی وزارت انصاف نے 95 قیدیوں کی ایک جزوی فہرست جاری کی جنہیں معاہدے کے پہلے مرحلے میں رہا کیا جائے گا۔ اس میں فلسطینی پارلیمنٹ کی رکن اور حقوق نسواں کی قانون ساز 61 سالہ خالدہ جرار بھی شامل ہیں جنہیں اسرائیلی فوج نے 26 دسمبر کو گرفتار کیا تھا۔ اس کے بعد سے انھیں بغیر مقدمہ چلائے حراست میں رکھا گیا ۔
گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی جیلوں میں عمر قید کی سزا کاٹنے والے 110 فلسطینیوں کے بدلے 9 بیمار اور زخمی اسرائیلیوں کو رہا کیا جائے گا۔
33 یرغمالیوں کی فہرست میں شامل 50 سال سے زیادہ عمر کے مردوں کو عمر قید کی سزا پانے والے قیدیوں کے بدلے 1:3 اور دیگر سزاؤں کے لیے 1:27 کے تناسب سے رہا کیا جائے گا۔ ایویرا مینگیستو اور ہشام السید، دو ذہنی مریض اسرائیلی مرد جو ایک دہائی قبل غزہ میں داخل ہوئے تھے، انھیں بھی رہا کیا جائے گا۔
2011 کے معاہدے کے تحت رہا ہونے کے بعد دوبارہ گرفتار کیے گئے مزید 47 اسرائیلی قیدیوں کو بھی رہا کیا جائے گا جو اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کو غزہ سے گھر لے آئے تھے۔
یہ معاہدہ پہلے مرحلے میں اپنے گھروں سے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی کے ارد گرد آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت بھی دے گا، جسے اسرائیل نے فوجی راہداری کے ذریعے دو حصوں میں تقسیم کیا ہواہے۔
اس معاہدے کے تحت زخمیوں کو علاج کے لیے بیرون ملک منتقل کیا جاسکے گا اور علاقے کے لیے امداد یومیہ 600 ٹرکوں تک پہنچائی جا سکے گی جو کہ امدادی ایجنسیوں کے بقول غزہ کے تباہ کن انسانی بحران پر قابو پانے کے لیے نہایت ضروری ہے۔
دوسرے مرحلے میں باقی ماندہ یرغمالیوں کو واپس بھیجا جائے گا اور اسی تناسب سے فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا اور اسرائیل مکمل طور پر علاقے سے نکل جائے گا۔اس سلسلے کی تفصیلات مزید بات چیت سے مشروط ہیں، جو پہلے مرحلے میں 16 دن میں شروع ہونے والی ہے۔
تیسرے مرحلے میں مقتول یرغمالیوں اور حماس کے ارکان کی لاشوں کے تبادلے پر توجہ دی جائے گی اور غزہ کی تعمیر نو کا منصوبہ شروع کیا جائے گا۔
بائیڈن انتظامیہ اور زیادہ تر عالمی برادری نے مغربی کنارے میں قائم نیم خود مختار فلسطینی اتھارٹی کی وکالت کی ہے، جس نے 2007 میں ایک مختصر سی خانہ جنگی کے نتیجے میں حماس کے ہاتھوں غزہ کا کنٹرول کھو دیا تھا۔
G-7 رہنماؤں نے اس امن معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جلد جنگ بندی ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بہت اہم ہے کہ ہم غزہ میں تباہ کن انسانی صورتحال کو ختم کرنے کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔
جی سیون ممالک نے کہا ہے کہ ہم خطے میں امن کے دیر پا قیام کے لیے اپنی حمایت کی تصدیق کرتے ہیں جو کہ دو ریاستی حل کی طرف جاتا ہے۔ یہی وہ واحد حل ہے جس سے اسرائیلی اور فلسطینی امن، وقار اور سلامتی کے ساتھ شانہ بشانہ رہ سکتے ہیں۔
تاہم دوسری طرف اسرائیلی جنگی طیاروں نے جمعرات کی رات تک غزہ پر شدید حملے جاری رکھے۔ فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے اعلان کے ایک دن بعد ،کم از کم 86 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ آئی ڈی ایف نے جمعرات کو دیر گئے کہا کہ اس نے 24 گھنٹوں کے دوران غزہ کی پٹی میں تقریباً 50 اہداف کو نشانہ بنایا۔
15 ماہ سے زیادہ کی جنگ میں 46,000 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور غزہ کا زیادہ تر انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف ان دعوؤں کا مطالعہ بھی کر رہی ہے کہ آیا اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کی ہے یا نہیں کی۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں اسرائیل کے تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 250 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا، جس نے بعد ازاں اس خوفناک جنگ کو جنم دیا۔