اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے کا دوسرا مرحلہ طے ہے، جو گزشتہ ہفتے شروع ہونے والی جنگ بندی کے تحت ہو رہا ہے۔
یہ جنگ بندی دونوں فریقوں کے درمیان خونریز جنگ کو ختم کرنے کے لیے کی گئی ہے۔ اب تک یہ معاہدہ برقرار ہے، جس سے فضائی حملے اور راکٹ حملے رکے ہیں اور غزہ میں انسانی امداد کا سلسلہ بڑھ گیا ہے۔
اتوار کو، جنگ بندی کے آغاز پر، حماس نے تین یرغمالیوں کو 90 فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کیا، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل تھے۔
آج توقع ہے کہ حماس چار مزید یرغمالیوں کو 200 فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کرے گی، جن میں 120 افراد وہ ہیں جو اسرائیلیوں پر مہلک حملوں کے جرم میں عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔ رہا کیے جانے والے قیدیوں کو غزہ یا بیرون ملک بھیجا جا سکتا ہے۔
یہ چار یرغمالی – کارینا آریو، ڈینیلا گل بوا، نعما لیوی، اور لیری البگ – 19-20 سال کی اسرائیلی فوجی خواتین ہیں، جنہیں 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں غزہ کے قریب نہال اوز بیس سے اغوا کیا گیا۔
اس حملے میں 60 سے زائد اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ ان چار خواتین کو سرحد پر نگرانی کے دوران پکڑا گیا۔ ایک اور فوجی، آگم برگر، بھی اغوا ہوئی تھیں لیکن وہ اس تبادلے میں شامل نہیں ہیں۔
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ وہ یرغمالیوں کو وصول کرنے، ان کی طبی اور جذباتی دیکھ بھال کرنے، اور ان کے اہل خانہ سے ملانے کے لیے تیار ہیں۔
تبادلے کے بعد، اسرائیل غزہ کو تقسیم کرنے والی سڑک نیتساریم کوریڈور سے پیچھے ہٹ جائے گا تاکہ بے گھر فلسطینی شمالی علاقوں میں واپس جا سکیں۔
ابتدائی طور پر فلسطینی صرف پیدل سفر کر سکیں گے، گاڑیوں کی اجازت بعد میں دی جائے گی۔
چھ ہفتوں کی جنگ بندی کے بعد کا مستقبل غیر یقینی ہے، لیکن کئی لوگ امید کرتے ہیں کہ یہ جنگ کے خاتمے کی طرف لے جائے گا، جس نے غزہ کو تباہ کر دیا، آبادی کو بے گھر کر دیا، اور لاکھوں افراد کو قحط کے خطرے میں ڈال دیا۔
اسرائیل کی کارروائیوں میں 47,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے، لیکن ہلاک ہونے والے جنگجوؤں کی تعداد واضح نہیں۔