قاہرہ میں چھ ملکی عرب وزارتی اجلاس میں فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کے خلاف ایک مضبوط اور متحدہ موقف اپنایا گیا۔
بڑھتے ہوئے انسانی بحران کے تناظر میں، عرب وزرائے خارجہ نے فلسطینیوں کی اپنے وطن سے جبری نقل مکانی کے کسی بھی اقدام کو سختی سے مسترد کر دیا۔
اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ایک جامع اور پائیدار جنگ بندی کا نفاذ اولین ترجیح ہونی چاہیے، تاکہ انسانی امداد بلا کسی رکاوٹ کے غزہ تک پہنچ سکے اور وہاں کے لوگوں کو فوری طور پر ضروری سہولیات فراہم کی جا سکیں۔
وزراء نے اس بات پر بھی زور دیا کہ فلسطینی عوام کو ان کے بنیادی حقوق دلوانے کے لیے ایک واضح سفارتی حکمت عملی اپنانا ضروری ہے، جس میں دو ریاستی حل کی بنیاد پر ایک مستقل اور منصفانہ تصفیہ یقینی بنایا جا سکے۔
اجلاس میں شریک وزرائے خارجہ نے فلسطینی عوام کے لیے عالمی برادری کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریوں پر زور دیا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ کسی بھی قسم کی جبری نقل مکانی ناقابل قبول ہوگی۔
وزراء نے امریکا سمیت تمام عالمی طاقتوں پر زور دیا کہ وہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کریں، تاکہ مشرق وسطیٰ میں جاری تنازع کو ختم کر کے ایک دیرپا امن قائم کیا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کرنا نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ ایک غیر انسانی اقدام بھی ہوگا، جس سے خطے میں مزید بدامنی اور عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔
اجلاس میں اس بات پر بھی غور کیا گیا کہ غزہ میں جاری انسانی بحران کو کم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔
وزراء نے کہا کہ غذائی اشیاء، طبی امداد اور تعمیراتی سامان کی بلا رکاوٹ ترسیل کو یقینی بنایا جانا چاہیے، تاکہ غزہ میں تباہ حال بنیادی ڈھانچے کی بحالی کی جا سکے اور عام شہریوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔
شرکاء نے خبردار کیا کہ اگر فوری طور پر بین الاقوامی امداد نہ پہنچی تو غزہ میں حالات مزید سنگین ہو سکتے ہیں، جس سے انسانی جانوں کے ضیاع کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
عرب وزرائے خارجہ نے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (UNRWA) کے کردار پر بھی تفصیل سے بات کی، جو لاکھوں فلسطینی مہاجرین کو خوراک، صحت اور تعلیمی سہولیات فراہم کر رہی ہے۔
وزراء نے UNRWA کی سرگرمیوں پر کسی بھی قسم کی پابندی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس ایجنسی کی موجودگی اور اس کا فعال کردار انتہائی ضروری ہے۔
انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالے تاکہ وہ UNRWA پر عائد کردہ پابندیاں واپس لے اور فلسطینی مہاجرین کی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
مزید برآں، اجلاس میں غزہ کے مستقبل اور اس کے انتظامی ڈھانچے کے حوالے سے بھی غور کیا گیا۔
وزرائے خارجہ نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ غزہ اور مغربی کنارے میں مؤثر حکمرانی کر سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک مستحکم فلسطینی انتظامیہ ہی خطے میں دیرپا امن کے قیام کی ضمانت دے سکتی ہے۔
اجلاس میں شریک تمام ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ فلسطینیوں کو ایک مستحکم اور خودمختار حکومت کے تحت اپنے معاملات خود چلانے کا پورا حق حاصل ہونا چاہیے۔
وزراء نے اسرائیل کی جانب سے UNRWA کی سرگرمیوں پر پابندی کے حالیہ فیصلے کی بھی شدید مذمت کی اور اسے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام فلسطینی مہاجرین کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ وہ پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے میں فوری مداخلت کرے اور اسرائیل پر دباؤ ڈالے تاکہ وہ UNRWA کے خلاف کیے گئے فیصلے کو واپس لے۔
اجلاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس تجویز پر بھی شدید تنقید کی گئی جس میں فلسطینیوں کو غزہ سے جبری طور پر نقل مکانی کروا کر مصر اور اردن میں آباد کرنے کی بات کی گئی تھی۔
وزرائے خارجہ نے اس تجویز کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی اور مشرق وسطیٰ میں مزید تنازعات کو جنم دے سکتی ہے۔
مصر اور اردن نے پہلے ہی اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا، جبکہ عرب اور عالمی برادری نے بھی اس پر شدید ردعمل دیا تھا۔
اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ فلسطینی عوام کو اپنے گھروں میں محفوظ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے اور ان کی جبری بے دخلی کا کوئی بھی منصوبہ کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔
سعودی وزارت خارجہ نے اجلاس کے بعد جاری کردہ بیان میں تصدیق کی کہ قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات کا بنیادی مقصد جنگ بندی کو یقینی بنانا، فلسطینی اتھارٹی کی حکمرانی کی صلاحیتوں کو مضبوط بنانا، اور غزہ میں انسانی امداد کی مقدار میں اضافہ کرنا تھا۔
اجلاس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے سفارتی کوششیں جاری رکھی جائیں گی اور عالمی برادری پر دباؤ ڈالا جائے گا کہ وہ فلسطینی عوام کے ساتھ انصاف کرے۔
اس اعلیٰ سطحی اجلاس میں متعدد اہم شخصیات نے شرکت کی، جن میں مصری وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی، اردنی وزیر خارجہ ایمن الصفدی، سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان، اور قطری وزیر اعظم و وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی شامل تھے۔
اس کے علاوہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سیکرٹری جنرل حسین الشیخ اور عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابوالغیط نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔
اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ عرب ممالک کو ایک مشترکہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ فلسطینی عوام کے حقوق کو درپیش خطرات کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کیا جا سکے۔
اجلاس کے شرکاء نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے حقوق کی حفاظت کے لیے مؤثر اقدامات کرے اور اسرائیل کی جانب سے فلسطینی سرزمین پر قبضے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکے۔
وزرائے خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ دو ریاستی حل ہی اس تنازعے کے مستقل حل کا واحد راستہ ہے اور عالمی برادری کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔
جیسے جیسے غزہ میں حالات مزید سنگین ہو رہے ہیں، عرب رہنماؤں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے اپنی سفارتی کوششیں جاری رکھیں گے اور اسرائیل اور عالمی برادری پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ فلسطینی عوام کو انصاف فراہم کریں۔
اجلاس کے آخر میں ایک اجتماعی اعلامیہ جاری کیا گیا، جس میں فلسطینی عوام کی خودمختاری، انصاف اور امن کے لیے کوششوں کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔
وزرائے خارجہ نے کہا کہ فلسطینی عوام کے لیے انصاف کی فراہمی اور ایک منصفانہ امن معاہدے کے بغیر خطے میں امن و استحکام ممکن نہیں ہوگا۔