بنگلہ دیش کے نو تعینات سفیر برائے سعودی عرب، ایم دلوار حسین، نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے کیونکہ وہ اپنی سفارتی شراکت داری کی 50 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔
ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ بنگلہ دیش اور سعودی عرب کے عوام کے درمیان تعلقات صدیوں پر محیط ہیں، جو رسمی سفارتی روابط سے کہیں زیادہ گہرے ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ بنگلہ دیش نے 1971 میں آزادی حاصل کی اور 1975 میں سعودی عرب کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات قائم کیے، جس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مسلسل ترقی کر رہے ہیں۔
بنگلہ دیش اور سعودی عرب اس تاریخی موقع کو مشترکہ تقریبات کے ذریعے منانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، جس میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے مختلف سرگرمیاں شامل ہوں گی۔
یہ تقریبات صرف رسمی نہیں ہوں گی بلکہ ان کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو ایک نئی بلندی پر لے جانا ہے۔
دونوں دارالحکومتوں، ریاض اور ڈھاکہ میں خصوصی تقریبات منعقد ہوں گی، جن میں ثقافتی وفود کا تبادلہ بھی شامل ہوگا، تاکہ عوامی سطح پر ایک دوسرے کی ثقافت کو بہتر طریقے سے سمجھا جا سکے اور باہمی تعلقات کو مزید مستحکم کیا جا سکے۔
سعودی عرب بنگلہ دیشیوں کے لیے نہ صرف ایک سفارتی شراکت دار ہے بلکہ ایک مذہبی مرکز کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔
بنگلہ دیش میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وہ سعودی عرب کو دو مقدس مساجد کے میزبان کے طور پر دیکھتے ہیں۔
لاکھوں بنگلہ دیشی ہر سال مذہبی فرائض کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب کا سفر کرتے ہیں اور اس حوالے سے سعودی قیادت کی مہمان نوازی کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
کچھ افراد یہ سمجھتے ہیں کہ بنگلہ دیش اور سعودی عرب کے تعلقات بنیادی طور پر انسانی وسائل کے تعاون پر مبنی ہیں، لیکن حقیقت اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔
اگرچہ سعودی عرب میں اس وقت تقریباً 3.2 ملین بنگلہ دیشی مقیم ہیں، مگر دونوں ممالک کے درمیان تجارتی، سرمایہ کاری، تکنیکی تعاون اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی جیسے اہم شعبوں میں بھی نمایاں پیش رفت ہو رہی ہے۔
سعودی عرب کی مختلف کمپنیاں بنگلہ دیش میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔
ایک سعودی کمپنی ریڈ سی گیٹ وے بنگلہ دیش کے ایک بندرگاہی ٹرمینل کا انتظام سنبھال رہی ہے، اور دیگر سعودی کمپنیاں بھی بنگلہ دیش کے کلیدی انفراسٹرکچر منصوبوں میں شمولیت کی خواہاں ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات میں حالیہ برسوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور سرمایہ کاری میں بھی وسعت آ رہی ہے۔
حکومت اور نجی سطح پر سعودی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے بات چیت جاری ہے، جبکہ کچھ بنگلہ دیشی کمپنیاں بھی سعودی عرب میں سرمایہ کاری کے امکانات کا جائزہ لے رہی ہیں۔
اب تک سعودی عرب میں زیادہ تر بنگلہ دیشی کارکن غیر ہنر مند تھے، لیکن بنگلہ دیش اب ہنر مند پیشہ ور افراد کو سعودی عرب بھیجنے پر توجہ مرکوز کر رہا ہے، تاکہ وہ مملکت کے جاری ترقیاتی منصوبوں میں ایک فعال کردار ادا کر سکیں۔
سعودی عرب کے ویژن 2030 کے تحت نیوم، ریڈ سی، القدیہ، امالا اور الدرعیہ جیسے بڑے منصوبے تیزی سے ترقی کر رہے ہیں، اور بنگلہ دیشی ہنر مند افراد ان میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے پاس ایک بڑی تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند پیشہ ور افراد موجود ہیں، جنہیں سعودی عرب کی ابھرتی ہوئی معیشت میں روزگار کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے متعارف کروانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔
توانائی کے شعبے میں بھی دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھ رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کے دوران توانائی تعاون کو مزید مستحکم کرنے پر بات چیت کی گئی ہے۔
بنگلہ دیش ایک توانائی مرکز بننے کی راہ پر گامزن ہے، جہاں نہ صرف اپنی قومی ضروریات کو پورا کرنے پر توجہ دی جا رہی ہے بلکہ مستقبل میں قریبی ممالک کو بھی توانائی فراہم کرنے کے منصوبے زیر غور ہیں۔
اس سلسلے میں سعودی عرب کے ساتھ کچھ بڑے معاہدوں پر کام ہو رہا ہے۔
توانائی کے علاوہ، پیٹروکیمیکل اور کھاد کے شعبے میں بھی تعاون کو فروغ دینے پر غور کیا جا رہا ہے، جس میں سعودی عرب میں کھاد کے مشترکہ منصوبے قائم کرنے کی تجویز شامل ہے۔
تعلیم اور تکنیکی تربیت کے شعبے میں بھی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے کام ہو رہا ہے۔
اس وقت تقریباً 1,500 بنگلہ دیشی طلبہ سعودی جامعات میں اسکالرشپ پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور توقع ہے کہ مستقبل میں مزید اسکالرشپس فراہم کی جائیں گی۔
بنگلہ دیش سعودی عرب کے ساتھ آئی ٹی اور تکنیکی تربیت کے شعبے میں بھی تعاون کو بڑھانا چاہتا ہے، تاکہ دونوں ممالک کی معیشتوں کو جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ پہنچے۔
حج کے حوالے سے بھی دونوں ممالک کے درمیان گہرے تعلقات قائم ہیں۔ اس سال تقریباً 87,000 بنگلہ دیشی عازمین حج ادا کریں گے، جس کے لیے جنوری میں ایک معاہدہ طے پایا ہے۔
اس معاہدے کا مقصد بنگلہ دیشی حجاج کے لیے حج کے عمل کو آسان اور موثر بنانا ہے، تاکہ انہیں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ ہو۔
سعودی عرب نے ہمیشہ انسانی ہمدردی کے معاملات میں بنگلہ دیش کا بھرپور ساتھ دیا ہے، خاص طور پر روہنگیا مہاجرین کے بحران کے دوران۔
اس وقت بنگلہ دیش تقریباً 1.5 ملین روہنگیا مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے، جنہیں میانمار میں ظلم و ستم کا سامنا تھا۔
ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری کی مدد ناگزیر ہے، اور سعودی حکومت اس ضمن میں انتہائی فراخدلی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
سعودی عرب نہ صرف انسانی امداد فراہم کر رہا ہے بلکہ عالمی فورمز پر بھی روہنگیا مسئلے کے حل کے لیے بنگلہ دیش کے موقف کی بھرپور حمایت کر رہا ہے۔
بنگلہ دیش اور سعودی عرب مختلف علاقائی اور عالمی امور پر قریبی تعاون کر رہے ہیں، خاص طور پر اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) جیسے پلیٹ فارمز پر۔
دونوں ممالک عالمی سطح پر مشترکہ مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی پالیسیوں کی حمایت کرتے ہیں۔
مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید مضبوط ہونے کی توقع ہے، خاص طور پر تجارت، سرمایہ کاری، ہنر مند افرادی قوت کے تبادلے، توانائی، تعلیم، اور انسانی امداد کے شعبوں میں۔
سفیر حسین نے زور دیا کہ بنگلہ دیش اور سعودی عرب کے تعلقات تیزی سے وسعت اختیار کر رہے ہیں اور آئندہ برسوں میں یہ شراکت داری مزید گہری ہوگی۔
50 ویں سالگرہ ان تعلقات کو ایک نئی سطح پر لے جانے کا ایک بہترین موقع ہے، اور دونوں ممالک اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے پرعزم ہیں۔