حماس نے آج کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف مسلسل دھمکیاں دراصل اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو غزہ میں جنگ بندی سے پیچھے ہٹنے اور محاصرے کو مزید سخت کرنے کی حمایت فراہم کر رہی ہیں۔
ٹرمپ نے حماس کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ وہ تمام یرغمالیوں کو فوری طور پر رہا کرے، چاہے وہ زندہ ہوں یا ان کی باقیات، ورنہ اس کے نتائج سنگین ہوں گے۔
حماس کے ترجمان عبد اللطیف القانوع نے خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو ایک پیغام میں کہا کہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو اور معاہدے کی شرائط پر عمل کرے، جو ثالثوں کی نگرانی میں طے پایا تھا۔
غزہ میں جنگ بندی کا یہ معاہدہ جنوری میں نافذ ہوا تھا، جس کی مذاکراتی کارروائی میں ٹرمپ کے خصوصی نمائندے کے ساتھ ساتھ سابق صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے نمائندے بھی شریک تھے۔
اس معاہدے کے تحت دوسرے مرحلے میں باقی یرغمالیوں کی رہائی عمل میں آنا تھی اور اس کے بعد جنگ کے مکمل خاتمے کے لیے حتمی مذاکرات کیے جانے تھے۔
جنگ بندی کا پہلا مرحلہ ہفتے کے روز ختم ہو گیا، جس کے بعد اسرائیل نے غزہ پر مکمل اقتصادی ناکہ بندی عائد کر دی اور تمام اشیائے ضروریہ کی ترسیل روک دی، جب تک کہ حماس باقی یرغمالیوں کو رہا نہ کر دے۔
تاہم اسرائیل نے جنگ ختم کرنے کے مذاکرات کا آغاز کرنے سے انکار کر دیا۔
فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اس مکمل ناکہ بندی کے نتیجے میں 23 لاکھ آبادی والے غزہ میں قحط اور بھوک کا بحران شدت اختیار کر سکتا ہے۔
بدھ کے روز ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں ان یرغمالیوں سے ملاقات کی جو پہلے مرحلے میں رہا کیے گئے تھے۔
اس ملاقات کے بعد انہوں نے مزید سخت بیانات دیے، جس میں اسرائیل کو جنگ مکمل کرنے کے لیے ہر ممکن مدد دینے کا وعدہ کیا۔
انہوں نے مزید کہا، غزہ کے عوام کے لیے ایک شاندار مستقبل انتظار کر رہا ہے، لیکن اگر تم نے یرغمالیوں کو روکے رکھا تو تمہارا انجام بہت برا ہوگا! ابھی عقل مندی کا مظاہرہ کرو، یرغمالیوں کو چھوڑ دو، ورنہ اس کے سنگین نتائج ہوں گے