قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے ایران اور امریکہ کے درمیان سفارتی معاہدے کی اشد ضرورت پر زور دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ قطر خطے میں کسی بھی قسم کی فوجی کشیدگی کی حمایت نہیں کرے گا۔
الجزیرہ کے مطابق، شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے کہا، قطر کسی بھی فوجی کارروائی کی حمایت نہیں کرے گا، ہم اس وقت تک اپنی کوششیں جاری رکھیں گے جب تک امریکہ اور ایران کے درمیان سفارتی حل نہیں نکل آتا۔ یہ ضروری ہے کہ اس معاملے پر ایک معاہدہ طے پائے۔
ان کے یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کے روز ایران کے ساتھ ایک ممکنہ امن معاہدے کی بات کی۔
ٹیلیویژن انٹرویو میں، آل ثانی نے ایران پر ممکنہ فوجی حملے کے خطرے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایران ہمارا قریبی ہمسایہ ہے اور ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھیں۔ یہ خطے کے مفاد میں ہے کہ ایران کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کیے جائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ چند سالوں میں خلیجی ممالک اور ایران کے درمیان تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
اگرچہ کچھ پالیسی اختلافات موجود ہیں، لیکن ان اختلافات کے باوجود ایران اور خلیجی ممالک کے سفارتی تعلقات متاثر نہیں ہوئے۔
دوسری جانب، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا کہ آنے والے دن بہت دلچسپ ہوں گے، اور یہ عندیہ دیا کہ وہ ایران کے ساتھ یا تو ایک نیا جوہری معاہدہ کریں گے یا پھر دوسرا راستہ اختیار کریں گے، جو ممکنہ فوجی کارروائی کی طرف اشارہ تھا۔
ایران نے اس کے جواب میں سخت مؤقف اختیار کیا، اور ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ جب تک امریکہ کا دباؤ اور دھمکیوں کی پالیسی جاری رہے گی، ہم واشنگٹن کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کریں گے۔
دریں اثناء، شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے قطر کی ثالثی کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ قطر ہمیشہ انسانی امداد کو اولین ترجیح دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم ایک بھی جان بچا سکیں تو یہ سب کچھ قابلِ قدر ہوگا۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ غزہ جنگ کے دوران قطر کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے اور کہا کہ پچھلے 15 مہینوں میں ہمیں ناقابلِ یقین الزامات اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، جس کا سامنا شاید ہی کوئی ملک کر سکتا۔
اس کے باوجود، انہوں نے زور دیا کہ قطر نے جنگ بندی کے لیے انتھک محنت کی، اور جب معاہدے کے اعلان کے بعد غزہ اور اسرائیل دونوں میں خوشی منائی گئی، تو اس نے قطر کی تمام مشکلات کو قابلِ قبول بنا دیا۔
آل ثانی نے جنگ بندی کے کامیاب معاہدے کا سہرا قطر، امریکہ، اور دیگر شراکت داروں کے مشترکہ اقدامات کو دیا اور خاص طور پر امریکی مشرقِ وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کے کردار کو سراہا، جنہوں نے مذاکرات کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
19 جنوری سے غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ نافذ العمل ہے، جس کے بعد اسرائیلی فوجی کارروائی روک دی گئی۔
اسرائیلی حملوں میں اب تک 48,400 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، جبکہ غزہ کا بیشتر حصہ تباہ ہو چکا ہے۔
گزشتہ نومبر میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآو گالانٹ کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔
مزید برآں، اسرائیل کو بین الاقوامی عدالتِ انصاف (ICJ) میں غزہ میں کیے گئے فوجی اقدامات کے خلاف نسل کشی کے مقدمے کا سامنا بھی ہے۔