شام میں شدید فرقہ وارانہ کشیدگی اور خونریزی نے ملک کے ساحلی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جسے بشار الاسد کے زوال کے بعد سب سے ہولناک اور مہلک تنازع قرار دیا جا رہا ہے۔
جمعرات کو ان جھڑپوں کا آغاز اس وقت ہوا جب سابق صدر بشار الاسد کے وفادار فوجیوں نے نئی حکومت کے سیکیورٹی اداروں پر مربوط حملے اور گھات لگا کر حملے کیے، جس کے نتیجے میں درجنوں اہلکار ہلاک ہو گئے۔
ان حملوں کے بعد صورتحال مزید کشیدہ ہو گئی جب ملک کے مختلف حصوں سے ہزاروں مسلح افراد، جو نئی حکومت کے حامی سمجھے جاتے ہیں، حکومت کی مدد کے لیے ساحلی علاقوں میں پہنچ گئے۔
یہ تنازع جلد ہی پرتشدد انتقامی حملوں میں بدل گیا، اور رپورٹس کے مطابق اب تک کم از کم 200 سیکیورٹی اہلکار اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جبکہ درجنوں نوجوانوں کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ شام کے ان علاقوں میں، جہاں اسد کے دور حکومت میں اقلیتوں کی آبادی تھی، وہاں مسلح گروہوں نے مہلک حملے کیے اور درجنوں گھروں پر دھاوا بولا، جس سے خوف و ہراس مزید بڑھ گیا ہے۔
کئی اہم شاہراہوں پر بھی حملے کیے گئے، جہاں مسلح گروہ سیکیورٹی فورسز کے قافلوں پر گھات لگا کر حملے کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
اس نازک صورتحال میں شام کے عبوری صدر احمد الشرع نے قوم سے امن اور اتحاد کی اپیل کی ہے۔
دمشق میں اپنے آبائی علاقے مزہ کی ایک مسجد سے نشر ہونے والے ویڈیو پیغام میں، انہوں نے شامی عوام کو یقین دلایا کہ ملک کے پاس اتنی طاقت اور وسائل ہیں کہ وہ ان چیلنجز کا مقابلہ کر سکے۔
ان کا کہنا تھا، ہمیں اپنی قومی یکجہتی کو محفوظ رکھنا ہوگا اور مل جل کر رہنے کا راستہ اپنانا ہوگا۔
یہ مشکلات شام کے لیے غیر متوقع نہیں ہیں، لیکن ہمیں ثابت قدم رہنا ہوگا۔
دوسری جانب، برطانیہ میں قائم شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کے مطابق، گزشتہ دو دنوں میں ہونے والی یہ جھڑپیں شام کی 13 سالہ خانہ جنگی کے دوران بدترین تشدد میں شمار کی جا رہی ہیں۔
ذرائع کے مطابق، کئی قصبوں میں رات بھر جھڑپیں جاری رہیں، جہاں مسلح گروہوں نے سیکیورٹی فورسز پر حملے کیے اور ساحلی علاقوں کی مرکزی شاہراہوں پر متعدد گھات لگا کر حملے کیے۔
سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات خاصے نازک ہیں اور اگر فوری طور پر اقدامات نہ کیے گئے تو صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے، جس سے ملک میں طویل مدتی عدم استحکام پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔