اسلام آباد: عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) اور پاکستانی حکام کے درمیان اقتصادی جنگ کا نیا باب کھل چکا ہے، حالیہ مذاکرات میں آئی ایم ایف نے ایک دلچسپ موڑ لے کر ایس آئی ایف سی کی جانب سے بین الاقوامی سرمایہ کاری منصوبوں پر ٹیکس استثنیٰ کا مطالبہ صاف طور پر مسترد کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق، آئی ایم ایف حکام نے وزارت خزانہ اور ایس آئی ایف سی کے عہدیداروں کے ساتھ ملاقات کی، جہاں ایس آئی ایف سی نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ سرمایہ کاری کے لیے ایک مضبوط پلیٹ فارم فراہم کر رہا ہے، جو کہ پاکستان کے اقتصادی مستقبل کے لیے ایک پل کے طور پر کام کر رہا ہے۔ لیکن آئی ایم ایف نے اس ‘پل’ پر ٹیکس استثنیٰ دینے سے صاف انکار کر دیا، جو کہ ایک بڑی اقتصادی لڑائی کا نشان بن چکا ہے۔
ذرائع کے مطابق، پاکستانی حکام نے چاغی سے گوادر تک ریلوے ٹریک منصوبے پر ٹیکس استثنیٰ کی درخواست کی تھی، جس کے بارے میں بتایا گیا کہ ریکوڈک سے نکلنے والی معدنیات کو گوادر تک پہنچانے کے لیے ایک بالکل نئی ریلوے لائن کی ضرورت ہے۔ لیکن آئی ایم ایف کی نظر میں، یہ "ڈیل” اتنی آسان نہیں تھی۔
مزید پیچیدہ بات یہ تھی کہ سرمایہ کار ممالک اس منصوبے میں سرمایہ کاری کے لیے حکومت سے سرکاری گارنٹی کی درخواست کر رہے تھے، مگر قرض پروگرام کی موجودگی میں حکومت پاکستان ہر سرمایہ کاری پر ریاستی گارنٹی دینے سے قاصر ہے۔
اس موقع پر ایس آئی ایف سی حکام نے آئی ایم ایف کے وفد کو نہ صرف سرمایہ کاری، گورننس اور اسٹرکچر کے بارے میں مفصل بریفنگ دی، بلکہ انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ منصوبے پاکستان کی معیشت کے لیے "گیم چینجر” ثابت ہو سکتے ہیں۔
یہ اقتصادی "کشتی” ہر دن نئی لہریں لے کر آ رہی ہے۔ آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام کے درمیان یہ مذاکرات ایک منفرد کھیل کی طرح چل رہے ہیں، جس میں ہر فریق اپنے مفادات کا دفاع کر رہا ہے۔ ان مذاکرات میں کامیابی اور ناکامی کی لائن محض چند کلیدی فیصلوں پر منحصر ہے، اور یہ معرکہ ابھی مکمل نہیں ہوا۔
یہ سچ ہے کہ پاکستانی حکام کو اس "معاشی مذاق” میں اپنی حکمت عملیوں کی کارگر ثابت ہونے کی پوری امید ہے، مگر آئی ایم ایف کی چالاک پالیسیوں کے سامنے یہ تگ و دو ایک نیا معاشی دریا پار کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں