پاکستان میں ایک حیران کن انکشاف ہوا ہے کہ 70 لاکھ سے زائد ایسے افراد کے شناختی کارڈ بدستور فعال ہی، جو برسوں پہلے وفات پا چکے ہیں۔ حکومت نے اب ان شناختی کارڈز کو منسوخ کرنے کے لیے مہم کا آغاز کر دیا ہے، لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ مسئلہ اتنے بڑے پیمانے پر پیدا کیسے ہوا؟
نادرا کے مطابق، زیادہ تر افراد کے ورثا ان کے شناختی کارڈ منسوخ کرانے نادرا نہیں جاتے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں یہ رجحان بہت کم ہے۔ دوسری طرف، یونین کونسل اور نادرا کے درمیان کوئی خودکار ڈیٹا شیئرنگ سسٹم موجود نہیں، جس کی وجہ سے یہ مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک انتظامی غفلت نہیں بلکہ اس سے سنگین جرائم جیسے جعلی ووٹنگ، بینک فراڈ اور جائیداد ہتھیانے جیسے مسائل بھی جنم لے سکتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے اس معاملے پر ایکشن تو لے لیا گیا ہے، لیکن کیا یہ مہم واقعی کوئی تبدیلی لا سکے گی یا پھر صرف کاغذوں تک محدود رہے گی؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
اس حوالے سے نادر ترجمان کے مطابق بیشتر شہریوں کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ کسی فرد کی پیدائش یا وفات کے اندراج کے بعد یہ معلومات نادرا میں بھی اپڈیٹ کروانا ضروری ہے۔ ان کے مطابق، لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے یونین کونسل میں اندراج کروا لیا تو ان کی ذمہ داری ختم ہو گئی، حالانکہ نادرا کے نظام میں تبدیلی کے بغیر شناختی کارڈ بدستور فعال رہتا ہے۔اور اس وجہ سے لوگ پہمارے ڈیٹا یس میں تاحال زندہ ہیں اور انکے شناختی کارڈ بھی فعال ہیں