تہران/واشنگٹن: عالمی سیاست ایک بار پھر ہنگامہ خیز موڑ پر، جب ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکی صدر کی جانب سے براہ راست مذاکرات کی پیشکش کو سختی سے مسترد کر دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایک ایسے فریق سے بات چیت بے معنی ہے جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بار بار طاقت کے استعمال کی دھمکیاں دیتا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ بیان میں ایران کے ساتھ براہ راست مذاکرات کو ترجیح دینے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ان کا مؤقف تھا کہ ثالثوں کے بغیر گفتگو نہ صرف تیز تر ہوتی ہے بلکہ ایک دوسرے کی بات کو بہتر انداز میں سمجھنے کا موقع بھی ملتا ہے۔
تاہم، ایرانی وزیر خارجہ نے اس پیشکش پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کا متضاد بیانیہ اور مسلسل دھمکیاں کسی بھی تعمیری عمل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ عراقچی نے کہا، ہم سفارت کاری کے لیے پرعزم ہیں لیکن ایسے فریق سے براہ راست بات چیت بے فائدہ ہے جو اپنی پالیسی میں اخلاص دکھانے سے قاصر ہے۔”
ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق، تہران بالواسطہ مذاکرات کے لیے تیار ہے، لیکن قومی مفادات اور خودمختاری کے دفاع میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ عراقچی نے مزید کہا کہ ایران سفارتکاری اور مزاحمت دونوں کے لیے تیار ہے، اور وقت آنے پر فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔
دوسری جانب ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے بھی واشنگٹن کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا، "ہم برابری کی بنیاد پر مذاکرات کے لیے تیار ہیں، مگر دھمکیوں کی فضا میں بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر آپ مذاکرات چاہتے ہیں تو خلوص دکھائیں، دباؤ نہیں۔
واشنگٹن اور تہران کے درمیان کشیدگی کی ایک بڑی وجہ ایران کا جوہری پروگرام بھی ہے۔ امریکا اور اس کے مغربی اتحادی دہائیوں سے تہران پر جوہری ہتھیار بنانے کا الزام عائد کرتے آ رہے ہیں، جبکہ ایران مسلسل اس کی تردید کرتا رہا ہے اور موقف اختیار کرتا ہے کہ اس کی جوہری سرگرمیاں مکمل طور پر سویلین نوعیت کی ہیں۔
یاد رہے کہ 2015 میں ایران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ ایک تاریخی جوہری معاہدہ (JCPOA) کیا تھا، جس کے تحت اسے جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے کے بدلے پابندیوں میں نرمی کی گئی۔ لیکن 2018 میں صدر ٹرمپ نے اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبرداری اختیار کر کے ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دیں، جس کے بعد تہران نے بھی معاہدے کی متعدد شرائط پر عملدرآمد روک دیا۔
حالیہ دنوں میں پاسداران انقلاب کے سربراہ حسین سلامی نے بھی واضح اعلان کیا کہ ایران کسی بھی جنگ کے لیے مکمل تیار ہے۔ انہوں نے کہاہم جنگ کی ابتدا نہیں کریں گے، لیکن کسی بھی ممکنہ جارحیت کا منہ توڑ جواب دیں گے۔
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے قریبی مشیر علی لاریجانی نے خبردار کیا کہ اگر ایران پر حملہ کیا گیا تو اسے جوہری ہتھیار بنانے پر مجبور ہونا پڑے گا، حالانکہ اس کا ارادہ نہیں ہے۔
یہ بیانات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ خلیج میں ایک نئی کشیدگی جنم لینے کو ہے، جہاں الفاظ کے تیر اور دھمکیوں کے بادل سفارت کاری کے آسمان پر چھا چکے ہیں۔