واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکی درآمدات پر بھاری محصولات عائد کیے جانے کے بعد عالمی سطح پر تجارتی بحران کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی نیشنل اکنامک کونسل کے سربراہ کیون ہیسیٹ نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا بھر کے 50 سے زائد ممالک نے امریکی حکام سے رابطہ کیا ہے تاکہ ان ٹیرف پر نرمی کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا جا سکے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، اے بی سی نیوز کے پروگرام دیس ویک میں گفتگو کرتے ہوئے کیون ہیسیٹ نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں کا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ امریکی مفادات کا تحفظ ہے۔ انہوں نے اس تاثر کی سختی سے تردید کی کہ یہ ٹیرف عالمی معیشت کو غیر مستحکم کرنے کی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔
ادھر امریکی سیکریٹری خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے این بی سی نیوز کے پروگرام میٹ دی پریس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسٹاک مارکیٹ میں حالیہ گراوٹ کو غیر ضروری اہمیت دی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق، ٹیرف کی وجہ سے معاشی بحران کی پیش گوئیاں قبل از وقت اور بے بنیاد ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ بدھ کو صدر ٹرمپ کی جانب سے بڑے پیمانے پر درآمدی ٹیرف کے اعلان نے دنیا بھر کی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا، جس کے بعد چین نے بھی جوابی اقدامات کا آغاز کرتے ہوئے امریکی اشیاء پر جوابی ٹیرف نافذ کر دیے۔ ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اس صورتحال سے ایک نئی عالمی تجارتی جنگ جنم لے سکتی ہے، جو عالمی معاشی استحکام کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
صرف دو دن میں امریکی اسٹاک مارکیٹ میں 10 فیصد سے زائد کی گراوٹ ریکارڈ کی گئی ہے، جس کا الزام معاشی تجزیہ کار صدر ٹرمپ کی جارحانہ تجارتی حکمت عملی پر ڈال رہے ہیں۔ ماہرین اقتصادیات اور فیڈرل ریزرو کے سربراہان کا بھی کہنا ہے کہ ان اقدامات سے افراط زر میں اضافہ اور معاشی ترقی کی رفتار سست ہو سکتی ہے۔