اسلام آباد / پشاور: پاکستانی تاریخ کے ایک طویل ترین قانونی مقدمے میں بالآخر ایک فیصلہ سامنے آ گیا ہے، جو نہ صرف قانون کی بالادستی کی مثال ہے بلکہ ایک شہری کے صبر و استقامت کی بھی داستان بیان کرتا ہے۔ وفاقی ٹیکس محتسب نے 27 سال قبل دبئی سے پشاور ایئرپورٹ پہنچنے والے مسافر سید رحمان کا ضبط شدہ 170 تولے سونا واپس کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔
یہ واقعہ پانچ جنوری 1997 کو پیش آیا تھا جب سید رحمان، جو کہ ایک خلیجی ملک سے وطن واپس آ رہے تھے، ان کے سامان سے پشاور ایئرپورٹ پر تعینات کسٹمز اہلکاروں نے 17 سونے کی سِلیں برآمد کیں، جن کا وزن 170 تولے اور اس وقت کی مالیت تقریباً 25 لاکھ روپے تھی۔ سونا غیرقانونی طریقے سے لانے کے الزام میں ضبط کر لیا گیا اور کیس نمبر 02/97 درج ہوا، جس کے تحت ایف آئی آر نمبر 03/97 بھی کاٹی گئی۔
سید رحمان نے اس ضبطی کو عدالت میں چیلنج کیا، اور 2004 میں کسٹمز اپیلیٹ ٹریبونل نے شہری کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے سونا واپس کرنے کا حکم جاری کیا۔ یہ فیصلہ بعد ازاں پشاور ہائیکورٹ (2012) اور پھر سپریم کورٹ آف پاکستان (2013) نے بھی برقرار رکھا۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ میں دائر کی گئی نظرثانی کی درخواست بھی خارج کر دی گئی۔
تاہم، عدالتی احکامات کے باوجود، کلیکٹریٹ آف کسٹمز پشاور نے 27 سال تک سونا واپس نہ کیا۔ بالآخر، شہری نے وفاقی ٹیکس محتسب سے رجوع کیا اور آئین کے آرٹیکل 189 کا حوالہ دیتے ہوئے شکایت دائر کی، جو سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد کو لازم قرار دیتا ہے۔وفاقی ٹیکس محتسب نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد ایف بی آر کو واضح ہدایت جاری کی ہے کہ وہ کلیکٹر کسٹمز پشاور کو عدالتی فیصلوں پر من و عن عمل درآمد کا پابند بنائے۔ محتسب نے یہ بھی کہا کہ واجب الادا ڈیوٹی، ٹیکس اور 10 فیصد جرمانہ ادا کرنے پر شہری کو اس کا ضبط شدہ سونا واپس کیا جائے۔
یہ فیصلہ ریاستی اداروں کے لیے ایک پیغام ہے کہ عدالتی فیصلے محض کاغذی حکم نہیں بلکہ آئینی حکم ہوتے ہیں، جن پر بروقت اور مکمل عمل درآمد لازمی ہے۔ سید رحمان کا کیس اس بات کی زندہ مثال ہے کہ اگرچہ انصاف میں تاخیر ہوتی ہے، لیکن جب سچائی اور قانون ساتھ ہوں، تو بالآخر انصاف ضرور ملتا ہے۔
27 سال بعد انصاف کی بحالی نہ صرف ایک شہری کے لیے خوشخبری ہے بلکہ ملک بھر میں ایسے افراد کے لیے بھی امید کی کرن ہے جو برسوں سے قانونی پیچیدگیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کسٹمز حکام کب اس فیصلے پرعملی طور پرعمل کرتے ہیں