رواں ہفتے رائیونڈ میں ایک اہم سیاسی پیش رفت دیکھنے میں آئی جب نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کی۔
یہ ملاقات نہ صرف سیاسی طور پر اہم سمجھی جا رہی ہے بلکہ بلوچستان کی پیچیدہ صورتحال کے تناظر میں اسے ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
نیشنل پارٹی کے اعلامیے کے مطابق، ملاقات میں بلوچستان کی مجموعی سیاسی، معاشی اور سماجی صورتحال پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔
ملاقات میں نیشنل پارٹی کی نمائندگی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے علاوہ سردار کمال خان بنگلزئی، سینیٹر جان محمد بلیدی، میر محمد اسلم بلوچ، میر شاوس بزنجو، رکن قومی اسمبلی پھلین بلوچ اور ایوب ملک نے کی۔
جبکہ مسلم لیگ ن کے وفد میں سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، خواجہ آصف، احسن اقبال، رانا ثنا اللہ، اویس لغاری، پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق اور وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ شامل تھے۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اس موقع پر بلوچستان میں جاری سیاسی بحران، جبری گمشدگیوں، سیاسی کارکنان کی گرفتاریوں اور خصوصاً ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کی گرفتاری کے حوالے سے نواز شریف کو آگاہ کیا۔
انہوں نے بلوچستان میں بی این پی مینگل کے لانگ مارچ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیاسی پیچیدگیوں پر بھی روشنی ڈالی۔
ڈاکٹر بلوچ نے واضح الفاظ میں کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ عسکری نہیں بلکہ ایک سیاسی معاملہ ہے جسے صرف اور صرف مذاکرات اور سیاسی مکالمے کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
اس ملاقات کے دوران بلوچستان کے نوجوانوں کو درپیش تعلیمی اور روزگار کے مسائل، طلبہ کے لیے اسکالرشپ اسکیموں کی ضرورت، سرحدی تجارت کو قانونی دائرے میں لانے، ماہی گیری کے شعبے کی ترقی، اور صوبے میں غیر قانونی شکار پر مؤثر پابندی جیسے امور پر بھی تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا۔
میاں نواز شریف نے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی تجاویز سے اتفاق کرتے ہوئے بلوچستان کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اور مؤثر کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
انہوں نے کہا کہ وہ وزیرِاعظم اور متعلقہ اعلیٰ حکام سے مشاورت کے بعد بلوچستان کے معاملے پر سنجیدہ اور مربوط اقدامات اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔
ملاقات کے اختتام پر میاں نواز شریف نے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور اُن کے وفد کے اعزاز میں ظہرانے کا بھی اہتمام کیا، جو کہ سیاسی رواداری اور باہمی احترام کا مظہر تھا۔
دونوں رہنماؤں نے بلوچستان کے مسائل کو نہایت سنگین قرار دیتے ہوئے ان کے فوری حل کے لیے متفقہ حکمت عملی اپنانے پر زور دیا۔
یہ ملاقات اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ پاکستان کے سینئر سیاست دان اب بلوچستان کے مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں اور اسے محض سیاسی نعرہ بازی کے بجائے ٹھوس اقدامات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت کو محسوس کر رہے ہیں۔