امریکی محکمہ خزانہ نے تازہ بیان میں ایران کے خلاف پابندیوں کے ایک نئے سلسلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد اسلامی جمہوریہ ایران کو جوہری اسلحہ بنانے سے باز رکھنا ہے۔
ان پابندیوں کے تحت پانچ ایرانی ادارے اور ایک فرد کو نشانہ بنایا گیا ہے، جن پر الزام ہے کہ وہ ایران کے جوہری منصوبوں کی براہ راست معاونت کر رہے ہیں۔
امریکی وزارت خزانہ کے مطابق ان اداروں میں ایران کی جوہری توانائی تنظیم اور سینٹری فیوج ٹیکنالوجی سے وابستہ ایک اہم کمپنی شامل ہے۔
ان پابندیوں کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ چند روز بعد عمان میں ایران کے ساتھ جوہری پروگرام پر براہ راست بات چیت کا امکان ہے۔
تاہم ایرانی وزیر خارجہ کی وضاحت کے مطابق یہ بات چیت بالواسطہ ہو گی، جس سے اس حساس معاملے پر دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد کی فضا مزید واضح ہو گئی ہے۔
صدر ٹرمپ نے اس بات چیت سے قبل ایک سخت انتباہ بھی جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو ایران کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکی صدر کے اس بیان کو کئی حلقے ایران پر دباؤ بڑھانے اور مذاکرات کی میز پر زیادہ رعایتیں حاصل کرنے کی ایک چال سمجھ رہے ہیں۔
ایران کے سینئر حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے پابندیوں اور مذاکرات کی پیشکش بیک وقت کرنا، اس بات کی علامت ہے کہ واشنگٹن تہران کو دھمکی آمیز انداز میں مذاکرات پر مجبور کرنا چاہتا ہے۔
ان حکام کے مطابق ایران نہ صرف اپنے جوہری پروگرام کو ترک کرنے سے انکاری ہے، بلکہ وہ اپنے علاقائی اثر و رسوخ اور دفاعی صلاحیتوں، بشمول بیلسٹک میزائل پروگرام، سے بھی دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔
ایک اعلیٰ ایرانی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ خطے میں ایران کی طاقت کو محدود کرنا چاہتی ہے، تاہم اسلامی جمہوریہ اپنے قومی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے اور اسے کسی صورت میں مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر تنازع کئی دہائیوں سے حل طلب ہے، اور مغربی طاقتیں اس پروگرام کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے ایک ممکنہ ذریعہ کے طور پر دیکھتی ہیں، جب کہ تہران مسلسل یہ مؤقف دہرا رہا ہے کہ اس کا پروگرام صرف بجلی کی پیداوار اور دیگر شہری مقاصد کے لیے ہے۔
امریکہ کی جانب سے ایران پر عائد کی گئی ان نئی پابندیوں نے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی کے عمل کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، اور مستقبل قریب میں کسی بامقصد معاہدے کی راہ مزید دشوار دکھائی دیتی ہے۔