روس اور یوکرین کے درمیان جاری طویل جنگ میں ایک نئی پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب یوکرین نے دعویٰ کیا کہ روسی افواج کے ہمراہ چینی شہری بھی میدانِ جنگ میں متحرک ہیں۔
اس انکشاف نے بین الاقوامی سطح پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، جبکہ چین نے یوکرین کے الزامات کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ایک بیان میں کہا کہ یوکرینی فورسز نے دو ایسے افراد کو گرفتار کیا ہے جن کا تعلق چین سے ہے اور جو مبینہ طور پر روسی فوج کے ہمراہ یوکرینی سرزمین پر لڑائی میں شریک تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ افراد سوشل میڈیا کے ذریعے روسی فوج میں بھرتی کیے گئے۔
اس کے بعد یوکرینی حکومت کی جانب سے ایک تفصیلی دعویٰ سامنے آیا، جس میں کہا گیا کہ یوکرین کے پاس 155 ایسے چینی افراد کی تفصیلات موجود ہیں جن کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ روسی افواج کی صفوں میں شامل ہیں۔
صدر زیلنسکی نے یہ بھی عندیہ دیا کہ اگر روس یوکرین کے قیدی فوجیوں کو رہا کرتا ہے، تو وہ بدلے میں ان گرفتار شدہ چینی شہریوں کی رہائی پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔
تاہم انہوں نے اس حوالے سے کوئی ناقابل تردید شواہد پیش نہیں کیے۔
میڈیا بریفنگ کے دوران زیلنسکی نے مبینہ چینی رضاکاروں کی تصاویر، ان کے پاسپورٹ نمبرز اور دیگر سفری تفصیلات صحافیوں کے ساتھ شیئر کیں، جن میں روس روانگی اور وہاں پہنچنے کی تفصیلات بھی شامل تھیں۔
امریکی خبر رساں ادارہ ایسوسی ایٹڈ پریس نے ان دستاویزات کی آزادانہ تصدیق سے گریز کیا ہے۔
مغربی دنیا میں ایسے خیالات پہلے سے پائے جاتے رہے ہیں کہ چین روس کی یوکرین کے خلاف مہم میں بالواسطہ معاونت کر رہا ہے۔
ماضی میں بھی چین روس کو مائیکرو الیکٹرانکس اور دیگر ایسی ٹیکنالوجی فراہم کرتا رہا ہے، جو دفاعی مقاصد میں استعمال کی جا سکتی ہیں۔
تاہم، اب تک یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ چین نے نہ تو براہِ راست فوجی مدد فراہم کی ہے اور نہ ہی مسلح افراد بھیجے ہیں۔
چینی وزارت خارجہ نے اس سارے معاملے پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے یوکرین کے الزامات کو بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔
بیجنگ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ چین اپنے شہریوں کو واضح طور پر ہدایت دیتا رہا ہے کہ وہ عالمی تنازعات، خاص طور پر جنگ زدہ علاقوں، سے دور رہیں اور کسی بھی فریق کی عسکری مدد سے گریز کریں۔
ادھر امریکہ کی کوششیں جاری ہیں کہ وہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری اس جنگ کا پرامن حل تلاش کرے، جو اب تین سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اپنے انجام کو نہیں پہنچی۔
چین اور امریکہ کے درمیان حالیہ برسوں میں تکنیکی، تجارتی اور سیاسی میدانوں میں تناؤ بھی اس تناظر میں اہمیت اختیار کر چکا ہے۔
جہاں ایران پر روس کو ڈرونز فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے، وہیں شمالی کوریا کی طرف سے سرکاری سطح پر تسلیم کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے فوجی روس کو بھجوائے ہیں۔
ایسے میں یوکرین کی طرف سے چین پر لگایا گیا یہ نیا الزام بین الاقوامی سفارتکاری کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب امریکہ اور یورپی ممالک یوکرین کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔