یوکرین جنگ میں چینی فوجی روسی وردی میں پکڑےجانا چین کی سفارتکاری پرسوالیہ نشان ہے،یوکرینی صدرزیلنسکی
کییف : جنگ زدہ مشرقی یورپ میں ایک نیا اور حیران کن موڑ! یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے ایک ایسے انکشاف سے دنیا کو چونکا دیا ہے جو نہ صرف روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ بلکہ چین کی عالمی شبیہہ پر بھی سوالیہ نشان لگا رہا ہے۔ زیلنسکی کے مطابق، یوکرینی فوج نے مشرقی ڈونیٹسک کے علاقے میں دو چینی باشندوں کو گرفتار کیا ہے، جو روسی افواج کے شانہ بشانہ لڑتے پائے گئے۔ مزید برآں، ایسے کئی چینی شہریوں کے روسی فوج میں شامل ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
یہ خبر جوں ہی عالمی میڈیا پر آئی، بیجنگ میں خاموشی چھا گئی۔ چین کی حکومت نے فوری طور پر کسی ردعمل سے گریز کیا، تاہم وزارت خارجہ کے ترجمان لن ژیان نے اعتراف کیا کہ وہ ان اطلاعات کی جانچ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چین اپنے شہریوں کو ہمیشہ ہدایت دیتا ہے کہ وہ مسلح تنازعات سے دور رہیں۔
ڈونیٹسک کی سرزمین پر چینیوں کی موجودگی سوالیہ نشان ہے
یوکرینی فوج کے مطابق، ڈونیٹسک کے مضافات میں واقع گاؤں تاراسیوکا اور بلوہوریوکا میں جھڑپوں کے دوران چھ چینی جنگجوؤں نے یوکرینی فورسز کو الجھائے رکھا، جن میں سے دو کو زندہ گرفتار کر لیا گیا۔ یہ خبر اس وقت آئی جب روس یوکرین پر نئے حملوں کی تیاری کر رہا ہے، اور یوکرین عالمی حمایت کو مزید فعال بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
یوکرین کے وزیر خارجہ اندری سیبیہا نے بھی اس معاملے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور بیجنگ میں تعینات چینی چارج ڈی افیئرز کو طلب کر کے باضابطہ وضاحت طلب کی۔ ان کا کہنا تھا کہ، "یہ جاننا لازمی ہے کہ چین کے شہری روسی قبضہ گیر فوج میں کیسے شامل ہوئے؟”
زیلنسکی نے اپنے بیان میں چین کو ایران اور شمالی کوریا کے بعد روسی فوج کی مدد کرنے والا تیسرا ملک قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر چینی جنگجو واقعی یوکرین میں سرگرم ہیں تو یہ نہ صرف چین کی پالیسی پر سوال اٹھاتا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے اس کی ساکھ پر بھی دھبہ ہے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ چین اگرچہ جنگی محاذ پر روس کو کھل کر عسکری امداد دینے سے انکاری رہا ہے، مگر توانائی اور تجارتی تعاون کے ذریعے ماسکو کی معیشت کو سہارا ضرور دیتا رہا ہے۔اس تازہ پیش رفت نے نہ صرف چین کےغیر جانبدار مؤقف کو مشکوک بنا دیا ہے بلکہ مغربی دنیا کی تشویش کو بھی بڑھا دیا ہے۔ واشنگٹن، سیول اور کیف جیسے دارالحکومتوں میں یہ سوال گونج رہا ہے کیا چین اس جنگ کا خفیہ فریق بن چکا ہے؟
بیجنگ کی خاموشی اور احتیاط اس وقت مزید معنی خیز ہو جاتی ہے جب زیلنسکی نے واضح طور پر چین سے فوری وضاحت طلب کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چین ان الزامات پر کیا مؤقف اختیار کرتا ہے اور کیا وہ اپنے شہریوں کی روسی فوج میں شمولیت کو روکنے کے لیے کوئی عملی اقدام کرے گا