نئی دہلی نے ایک بڑی سفارتی کامیابی کا دعویٰ کرتے ہوئے پاکستانی نژاد کینیڈین تاجر تہور حسین رانا کو بالآخر امریکہ سے حوالگی کے بعد اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ 64 سالہ تہور رانا، جنہیں ماضی میں ایک معالج اور امیگریشن کاروباری شخصیت کے طور پر جانا جاتا تھا، اب 2008 کے مہلک ممبئی حملوں کے مرکزی منصوبہ ساز کے طور پر بھارتی عدالتوں کا سامنا کریں گے۔ ان حملوں میں 160 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، جنہوں نے دنیا کو دہلا کر رکھ دیا تھا۔
تہور رانا کی حوالگی کے لیے بھارت اور امریکہ کے درمیان ایک دہائی سے زائد عرصے پر محیط مسلسل اور مربوط کوششیں جاری تھیں۔ بالآخر امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے ان کی اپیلیں مسترد ہونے کے بعد، انہیں سخت سکیورٹی میں دہلی کے قریب ایک فوجی ایئربیس پر لایا گیا، جہاں بھارتی انسداد دہشتگردی ایجنسی (NIA) نے باضابطہ ان کی حوالگی کا اعلان کیا۔ بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ نے اس پیش رفت کو وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی "سفارتی فتح” قرار دیا ہے۔
تہور رانا پر الزام ہے کہ وہ پاکستان میں کالعدم تنظیم لشکرِ طیبہ (LET) سے منسلک رہے، جو اقوامِ متحدہ کے مطابق ایک دہشتگرد تنظیم ہے۔ رانا کے قریبی ساتھی اور امریکی عدالت میں وعدہ معاف گواہ بننے والے ڈیوڈ ہیڈلی کے مطابق، رانا نے حملوں کی منصوبہ بندی اور مالی معاونت میں اہم کردار ادا کیا۔ امریکہ میں انہیں 2013 میں ڈنمارک کے اخبارات پر حملے کی سازش اور ممبئی حملوں میں ملوث ہونے پر 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
دوسری جانب پاکستان نے واضح کیا ہے کہ تہور رانا کی پاکستانی شہریت کی حیثیت اب مبہم ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے کہا کہ رانا نے گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستانی دستاویزات کی تجدید کے لیے کوئی درخواست نہیں دی اور ان کی کینیڈین شہریت ہی ان کی شناخت کا اصل حوالہ ہے۔ ممبئی حملوں کا یہ مقدمہ برسوں سے بھارت اور امریکہ کے درمیان تناؤ اور تعاون کا مشترکہ مرکز رہا ہے۔ اب جب کہ رانا کو بھارت کے حوالے کر دیا گیا ہے، دنیا کی نظریں ایک بار پھر اس کیس پر مرکوز ہو گئی ہیں، جو نہ صرف دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ کا حصہ ہے، بلکہ سفارتی اور قانونی محاذ پر ایک نئی مثال بھی قائم کر رہا ہے