بالآخر پاکستان اور بیلاروس کے تعلقات نے نئی بلندیوں کو چھو لیا ہے، جہاں وزیراعظم شہباز شریف کے حالیہ دورۂ منسک نے دوطرفہ شراکت داری کے ایک نئے باب کا آغاز کر دیا ہے۔ بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو سے ملاقات کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تجارت، دفاع، سرمایہ کاری، افرادی قوت اور زرعی و صنعتی شعبوں میں قریبی تعاون پر اتفاق ہوا۔ خاص طور پر یہ بات طے پائی کہ بیلاروس میں ڈیڑھ لاکھ ہنرمند پاکستانی نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں گے، جس سے نہ صرف پاکستان میں بے روزگاری کم ہو گی بلکہ ترسیلات زر میں بھی نمایاں اضافہ ہوگا۔
منسک کے ایوانِ آزادی میں وزیراعظم شہباز شریف کا پرتپاک استقبال کیا گیا، بیلاروس کی مسلح افواج کی جانب سے گارڈ آف آنر پیش کیا گیا، اور صدر لوکاشینکو کی میزبانی نے پاکستانی وفد کو ایک "فیملی ری یونین” کا احساس دلایا۔ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران وزیراعظم نے بیلاروس میں پاکستانی افرادی قوت کو مواقع دینے کی پیشکش پر صدر کا شکریہ ادا کیا اور اس بات پر زور دیا کہ بیلاروس میں مقیم پاکستانی اس ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے۔
اس تاریخی موقع پر دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعاون، دفاعی تکنیکی شراکت، ری ایڈمیشن، زرعی و معدنی ترقی، اور صنعتی سرمایہ کاری کے متعدد معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے۔ خاص طور پر 2025 سے 2027 تک کے فوجی تکنیکی تعاون کا روڈ میپ طے پانا دونوں ممالک کے اسٹریٹجک تعلقات میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
وزیراعظم نے بیلاروس کی زرعی مشینری اور صنعتی مہارت کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور بیلاروس کی ٹیکنالوجی کے ذریعے زرعی پیداوار میں انقلابی بہتری لائی جا سکتی ہے۔ انہوں نے بیلاروس کی کمپنیوں کو پاکستان میں زراعت، معدنیات اور صنعت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی اور یہ یقین دلایا کہ پاکستان میں کھربوں ڈالر کے معدنی ذخائر بین الاقوامی شراکت داروں کا انتظار کر رہے ہیں۔
دونوں ممالک کی قیادت نے پاکستان بیلاروس بزنس فورم کو دوطرفہ تجارت کے فروغ کے لیے اہم قدم قرار دیا۔ صدر لوکاشینکو نے اس دورے کو پاکستان کے ساتھ تعلقات میں نئے دور کا آغاز قرار دیا، جب کہ وزیراعظم شہباز شریف نے یاد دلایا کہ ان کے بڑے بھائی، سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں ان دوستانہ تعلقات کی بنیاد رکھی گئی تھی، جسے اب مزید مستحکم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ یہ دورہ نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان اعتماد اور تعاون کی نئی راہیں ہموار کر رہا ہے بلکہ جنوبی ایشیا اور مشرقی یورپ کے درمیان سیاسی و اقتصادی تعلقات میں بھی ایک مثبت پیش رفت ثابت ہو سکتا ہے