گزشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر حرم مکی کے سینئر امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس حفظہ اللہ کے خلاف ایک فیک ویڈیو اور فیک آڈیو کو جوڑ کر پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ اس ویڈیو میں امام صاحب سے منسوب کرکے کہا گیا ہے کہ انھوں نے حرم مکی میں ایک درس کے دوران کہا کہ "غزہ کی جنگ فتنہ ہے ، اس سے دور رہو، اپنے علماء اور حکام کی اطاعت کرو”۔ یہ سراسر ایک فیک اور جھوٹی ویڈیو ہے۔
ائمہ حرمین شریفین متواتر اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کی حمایت و مدد کے لیے امت مسلمہ سے اپیل بھی کرتے ہیں اور ان کی حفاظت و آزادی کے لیے دعائیں بھی مانگتے ہیں۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ مسلمانوں کے اندر سے ہی کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جو عربوں کو گالیاں دینا، شیوخِ حرمین شریفین پرسب و شتم کرنا، فیک اور جھوٹی ویڈیوز بنا بنا کر ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا ہی ، فلسطین کی خدمت سمجھتے ہیں۔ یعنی ان لوگوں کی غزہ اور فلسطین کی کُل خدمت عربوں کے خلاف بولنا، لکھنا اور جھوٹ گھڑنا ہے۔
فلسطین اور غزہ کی صورتحال میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلمانوں کی بالخصوص اور غیر مسلموں کی بالعموم توجہ اور مدد کا رُخ مظلوموں کی طرف ہوتا، لیکن یہاں معاملہ اس کے اُلٹ چل رہا ہے۔
مسلمان ، مسلمانوں کے خلاف ہی فیک اور جھوٹی ویڈیوز بنانے اور پروپگنڈہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر گالیوں، بدزبانیوں، اتھامات اور الزامات کے ذریعے مسلمانوں بالخصوص سعودی عرب اور حرمین شریفین کے ائمہ کرام کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔
دوسری جانب سعودی حکومت نے جتنی فلسطین کی مدد کی ہے۔ پورا عالم اسلام(57 اسلامی ممالک) ملکر بھی اتنی مدد اور خدمت نہیں کر سکے۔
سعودی عرب نے 1960 کی دہائی سے اب تک 100 ارب ڈالر سے زیادہ کی مالی مدد فلسطین کو دی ہے۔ 2000ء سے 2020ء کے درمیان سعودی حکومت نے فلسطینی اتھارٹی اور یونائیٹڈ نیشنز ایجنسی UNRWA کو فلسطین میں صرف امدادی سرگرمیوں کے لیے اب تک 6ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم دی ہے۔ جب غزہ پر حملہ ہوا، سعودی عرب نے فوراً 50 ملین ڈالر کی ایمرجنسی مدد کا اعلان کیا۔
بعد ازاں خادم الحرمین شریفین کی خصوصی اپیل پر سعودی قوم نے "ساہم پلیٹ فارم” کے ذریعے 120 ملین ریال جمع کرکے فلسطین کے حوالے کیے جن میں 30 ملین ریال خادم الحرمین الشریفین اور 20 ملین ریال ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنی جیب سے دیے۔ اس عوامی مہم میں شیخ عبد السدیس نے 1 ملین ریال اپنی جیب سے دیے اور دنیا بھر کے مسلمانوں سے اہل غزہ کی مدد کی اپیل کی۔
سعودی حکومت کی طرف سے ماضی کی جنگوں سے متاثرہ غزہ کو پہلے 2003ء اور بعد میں 2013ء میں دوبارہ تعمیر کرکے دیا گیا۔ اور تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ سعودی عرب نے اہل غزہ کے لیے ماہانہ خرچہ مقرر کیا۔
رفح بارڈر اور بیرون غزہ میں قائم یہ خوبصورت بستیاں سعودی سرمائے سے تعمیر ہوئی تھیں۔ درجنوں اسپتال، درجنوں اسکولز، کالجز، مساجد اور مدارس سعودی امداد سے ہی بنائے گئے تھے۔
اس ساری خدمت کے بالمقابل 57 اسلامی ملکوں کی غزہ کے لیے خدمات کیا ہیں؟ کیا کیا ہے غزہ کے لیے باقی اسلامی ملکوں نے؟ انسانیت بتا ، کیا یہی صلہ دیا جاتا ہے محسنوں کو؟ کیا تعمیر کرنے والوں اور تخریب کاروں میں کوئی فرق نہیں ہوتا؟
جب تک مسلمان انصاف اور سچ کی بجائے منافقتوں سے کام لیں گے، خالی شعبدہ بازیاں دکھائیں گے، کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ فلسطین کے حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ مسلمانان عالم میں سے جو ایک تنکے کی مدد کرسکتا ہے، وہ مدد کرے۔ جو ایک پہاڑ جتنی مدد کرسکتا ہے ، وہ مدد کرے۔
لیکن خدارا ایک دوسرے پر الزامات اور اتہامات کو بند کیا جائے، ایک دوسرے کے خلاف فیک اور جھوٹی ویڈیوز کا بازار بند کیا جائے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ مسلمانوں کے تیسرے حرم کی حمایت میں پہلے حرم کے خادمین اور ائمہ کرام پر تہمتیں اور الزامات لگائیں