ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی مکمل اختیارات کے ساتھ مسقط پہنچ گئے ہیں، جبکہ امریکی وفد کی قیادت ٹرمپ کے قریبی دوست اور عالمی نمائندے سٹیو وٹکوف کر رہے ہیں۔ہماری سرخ لکیر واضح ہے، ایران جوہری ہتھیار نہیں بنا سکتا، مگر ہم سمجھوتے کے لیے دیگر راستے تلاش کرنے پر آمادہ ہیں۔
2015 میں باراک اوباما کے دور میں ہوا جوہری معاہدہ ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد مسترد کر دیا تھا اور ایران پر سخت پابندیاں لگا دیں۔ ایران نے بھی بعد میں معاہدے کی کئی شقوں کی خلاف ورزی شروع کر دی، جس کے بعد جوہری پروگرام نے نئی تیزی پکڑ لی۔ایران کا کہنا ہے کہ اس کا پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے، اور اقوام متحدہ کی قرارداد 2231 بھی اس کی توثیق کرتی ہے۔
یہ بات چیت مسقط میں ہو رہی ہے، جو مشرق وسطیٰ میں کئی دہائیوں سے خاموش سفارت کاری کا مرکز رہا ہے۔ عباس عراقچی نے کہا کہ عمان ایک قابل اعتماد ثالث ہے اور ایران ماضی میں اس کے کردار سے مطمئن رہا ہے۔ایران نے زور دیا ہے کہ امریکہ اگر پابندیاں اٹھانے پر آمادگی دکھاتا ہے تو ایک معاہدہ ممکن ہے۔ عراقچی نے کہا ہم پیشگی شرائط قبول نہیں کریں گے۔ اگر دوسرا فریق حقیقی ارادہ لے کر آئے تو ہم یقینی طور پر معاہدے تک پہنچ سکتے ہیں۔”
ٹرمپ بارہا کہہ چکے ہیں کہ اگر بات چیت ناکام ہوئی تو ایران کے جوہری پروگرام کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب ایرانی حکام نے خبردار کیا ہے کہ اگر کوئی راستہ نہ نکلا تو ان کا یورینیم ذخیرہ ہتھیار بنانے کے درجے تک پہنچنے کو ہے۔مسقط میں یہ مذاکرات ایک باریک لکیروں پر چلتی سفارت کاری کی کوشش ہیں جہاں جنگ اور امن کے درمیان صرف الفاظ، اعتماد اور نیت کی دیوار کھڑی ہے۔