دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ تعلقات ہمیشہ برابری اور باہمی مفادات کی بنیاد پر استوار کیے جاتے ہیں۔ یہی اصول آج کے عالمی منظرنامے میں بھی اپنی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہے، جہاں ہر ریاست اپنی خارجہ پالیسی کو اس نہج پر تشکیل دے رہی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے مفادات کی حفاظت کرے بلکہ دنیا میں امن و استحکام کے لیے بھی کردار ادا کرے۔ اسی تناظر میں سعودی عرب نے گزشتہ دہائی میں جو سفارتی تبدیلیاں کی ہیں، وہ نہ صرف قابل تحسین ہیں بلکہ ایک نئے دور کی نوید بھی ہیں۔
جب دنیا کئی سنگین تنازعات کا شکار ہےروس-یوکرین جنگ،فلسطین اسرائیل ، سوڈان میں خانہ جنگی، شام میں خانہ خرابیاں، پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان کشیدگی تو ایک نام جو بار بار سامنے آتا ہے، وہ ہے سعودی عرب۔ یہ وہ ملک ہے جو ماضی میں تیل کی طاقت اور مقدس مقامات کی وجہ سے جانا جاتا تھا، لیکن اب وہ سفارتی محاذ پر بھی ایک مضبوط اور ذمہ دار کردار ادا کر رہا ہے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے عالمی سفارتکاری میں جو بصیرت دکھائی ہے، وہ نہایت قابل تعریف ہے۔ اُنہوں نے واضح کر دیا ہے کہ سعودی عرب کسی تنازع کا حصہ بننے کی بجائے، امن قائم کرنے والے، ثالثی کرنے والے اور مذاکرات کروانے والے ملک کے طور پر اپنا مقام بنائے گا۔ ان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون یہی ہے کہ مسائل کو طاقت کی بجائے بات چیت سے حل کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی شناخت ایک ثالث کے طور پر مستحکم کی ہے۔
یہ پالیسی تبدیلی صرف الفاظ تک محدود نہیں بلکہ عملی اقدامات سے واضح ہوتی ہے۔ سعودی حکومت نے حالیہ برسوں میں کئی اہم تنازعات میں ثالثی کی پیشکش کی، جن میں ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی، شام کا مسئلہ، یمن کی صورت حال اور روس-یوکرین جنگ جیسے بڑے بحران شامل ہیں۔
اسرائیل غزہ تنازع ،روس اور یوکرین کے درمیان جاری خونریز جنگ نے عالمی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس جنگ میں جہاں مغربی دنیا کھل کر یوکرین کی حمایت کر رہی ہے، وہیں سعودی عرب نے غیر جانبدار رہتے ہوئے دونوں فریقوں کے درمیان امن کی راہیں تلاش کرنے کی کوشش کی۔ سعودی عرب نے نہ صرف انسانیت کی بنیاد پر امداد فراہم کی بلکہ جنگ بندی کے لیے سفارتی دباؤ بھی استعمال کیا۔
یہی وہ نکتہ ہے جہاں سعودی سفارتکاری اپنی مثال آپ بن گئی ہےطاقتور ممالک کی صف میں کھڑے ہو کر بھی تحمل، تدبر اور عقل مندی سے امن کا پیغام دینا۔حال ہی میں جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر کڑی تنقید کی اور اس کے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں، تو دنیا ایک بار پھر کسی نئی جنگ کے خوف میں مبتلا ہو گئی۔ لیکن سعودی عرب نے یہاں بھی اپنا کردار نبھاتے ہوئے دونوں فریقین کے درمیان فاصلے کم کرنے کی کوشش کی۔ اسی تناظر میں تہران میں ایک غیر معمولی سفارتی لمحہ اُس وقت سامنے آیا جب سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان، شاہ سلمان کا خصوصی پیغام لے کر ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کے لیے پہنچے۔ یہ دورہ اُس وقت ہوا جب ایران اور امریکہ جوہری پروگرام پر اہم مذاکرات کی تیاری کررہے ہیں اور یوں سعودی سفارتکاری نے ایک بار پھر خطے کے منظرنامے پر ہلچل مچا دی۔
آیت اللہ خامنہ ای نے بھی کھلے دل سے خیر مقدم کیا اور کہا، ایران اور سعودی عرب کے تعلقات ہمارے لیے فائدہ مند ہیں دوسری جانب سعودی عرب نے امریکہ-ایران مذاکرات کی بھرپور حمایت کا اعلان کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اب مشرقِ وسطیٰ میں ثالثی کا نیا بادشاہ اُبھرا ہےاور وہ ہے ریاض
بیجنگ معاہدے کے بعد ایران اور سعودی عرب کے درمیان فوجی روابط بھی گرمجوشی کی نئی مثالیں قائم کر رہے ہیں۔ اب جب کہ دنیا جھگڑوں سے تھک چکی ہے، سعودی عرب محمد بن سلمان کی قیادت میں ایک امن کے معمار، ایک جدید وژنری اور ایک عالمی ثالث کے طور پر دنیا کا دھیان اپنی جانب کھینچ رہا ہے۔
مختصر یہ کہ سعودی عرب اب صرف تیل کا بادشاہ نہیں، سفارتکاری کا سلطان بھی بن چکا ہے اس ثالثی کو عالمی میڈیا نے بھی سراہا اور یہ پیغام دنیا تک پہنچا کہ سعودی عرب اب صرف خطے کا نہیں، بلکہ عالمی امن کا بھی نگہبان بن چکا ہے۔
چاہے بات ہو سوڈان کی خانہ جنگی کی یا شام میں حکومت اور باغیوں کے درمیان کشیدگی کی، سعودی عرب ہمیشہ مذاکرات، جنگ بندی اور انسانیت کی مدد کے لیے صف اول میں کھڑا دکھائی دیا ہے۔ ان اقدامات کی بدولت سعودی عرب نے نہ صرف اپنا بین الاقوامی وقار بلند کیا ہے بلکہ مظلوم اقوام کو امید کی نئی کرن بھی دی ہے۔
سعودی عرب کا "ویژن 2030” اس کی ترقی، خوشحالی اور عالمی برادری میں مقام کی بحالی کی مکمل تصویر ہے۔ یہ وژن صرف معیشت اور انفراسٹرکچر کی ترقی پر ہی مبنی نہیں، بلکہ اس کا ایک بنیادی مقصد عالمی برادری میں سعودی عرب کو ایک پُرامن، ترقی یافتہ اور متوازن ملک کے طور پر متعارف کروانا ہے۔
اس وژن کے تحت سعودی عرب سیاحت، تعلیم، ثقافت، ٹیکنالوجی اور انڈسٹری کے شعبوں میں اصلاحات لا رہا ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانا، غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا، اور نوجوانوں کو جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگ کرنا اس وژن کے اہم ستون ہیں۔
آج کی دنیا جہاں ہر طاقت اپنا مفاد دیکھتی ہے، وہاں سعودی عرب نے خود کو ایک "نرم طاقت (Soft Power) کے طور پر منوایا ہے۔ سعودی سفارتکاری میں جس فہم، توازن اور امن کا عنصر نمایاں ہے، وہ دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔ محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر نیت خالص ہو، وژن واضح ہو اور پالیسی متوازن ہو، تو ایک ملک دنیا بھر کے تنازعات کو سلجھانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
یہی وہ سعودی عرب ہے جو ایک نئے عالمی دور میں نہ صرف ترقی کی راہ پر گامزن ہے، بلکہ دنیا کو بھی امن، تحمل، اور مذاکرات کی اہمیت کا سبق دے رہا ہے