پاکستان کی معروف اور تاریخی درسگاہ، پنجاب یونیورسٹی، ان دنوں ایک بڑے اور اہم تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے۔
برسوں سے چلے آ رہے ہاسٹل کلچر میں ایسا انقلابی قدم اُٹھایا گیا ہے جو پہلے صرف باتوں اور خواہشات تک محدود تھا۔
یونیورسٹی میں غیرقانونی طور پر مقیم طلبہ، تنظیموں کے زیرِ اثر ہاسٹلز، اور دہائیوں پرانے قبضے یہ سب اب ماضی کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے عید کے دوران ایک خاموش مگر مؤثر آپریشن کے ذریعے غیرقانونی طلبہ کو ہاسٹلز سے نکال دیا۔
اس عمل میں پولیس کی مدد لی گئی، اور تین مرحلوں پر مشتمل سیکیورٹی چیکنگ سسٹم نافذ کر دیا گیا تاکہ صرف مستحق اور رجسٹرڈ طلبہ ہی اپنے کمروں تک رسائی حاصل کر سکیں۔
ایک طالب علم، موسیٰ، جو ہاسٹل میں رہائش پذیر ہیں، نے بتایا کہ عید سے پہلے ہی نوٹس لگنے شروع ہو گئے تھے، مگر اس بار ماحول میں سنجیدگی اور دباؤ واضح تھا۔
افواہیں تھیں کہ اس بار کوئی بڑی کارروائی ہونے والی ہے۔
طلبہ کی اکثریت عید کی چھٹیوں میں گھروں کو چلی گئی اور جب واپس آئے تو دیکھا کہ ہاسٹل کی شکل ہی بدل چکی تھی۔
غیرقانونی کمروں کو خالی کرا لیا گیا تھا، اور سیکیورٹی غیر معمولی حد تک بڑھ چکی تھی۔
ڈاکٹر علی کبیر، جو خود پنجاب یونیورسٹی کے استاد ہیں اور ماضی میں طالب علم بھی رہے، اس تبدیلی پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں یونیورسٹی میں اتنی سختی اور نظم و ضبط کبھی نہیں دیکھا۔
عید سے پہلے ایک ہوسٹل میں تقریباً ایک ہزار طلبہ رہائش پذیر تھے، مگر چھٹیوں کے بعد صرف 320 باقی بچے۔ باقی سات سو کے قریب غیرقانونی رہائشی تھے۔
اور یہ صرف ایک ہاسٹل کی بات ہے، تقریباً ہر ہاسٹل کی یہی حالت تھی۔
پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان، ڈاکٹر خرم کے مطابق، اس تبدیلی کی بنیاد نئے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی کے چارج سنبھالنے کے فوراً بعد رکھی گئی۔
انہوں نے آتے ہی واضح پالیسی دی کہ ہاسٹلز میں غیرقانونی الاٹمنٹ ختم کی جائے گی۔
تفتیش کے دوران انکشاف ہوا کہ نہ صرف طلبہ تنظیموں نے ہاسٹلز میں قبضہ جما رکھا تھا، بلکہ یونیورسٹی کی زمین پر تقریباً 37 خاندان گزشتہ 70 سال سے غیرقانونی طور پر آباد تھے۔
مزید حیران کن بات یہ تھی کہ ان خاندانوں کو وہاں بسوانے والے افراد خود یونیورسٹی کے ملازمین تھے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ زمین واپس لے لی گئی ہے اور اب یونیورسٹی کے اندر تنظیموں کے بینرز، لوگو اور اشتہارات بھی ہٹا دیے گئے ہیں، جو پہلے کبھی ممکن نہ ہو سکا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ عید کی چھٹیوں کے دوران کارروائی اس لیے کی گئی کیونکہ اس وقت طلبہ کی تعداد کم ہوتی ہے، اور آپریشن مؤثر طور پر انجام دیا جا سکتا ہے۔
بعض کمروں سے منشیات بھی برآمد ہوئی ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہاسٹلز میں کیا کچھ ہو رہا تھا اور اس صفائی کی کتنی ضرورت تھی۔
یونیورسٹی ہاسٹلز کا کلچر اب تیزی سے بدل رہا ہے۔
اگرچہ ان ہاسٹلز کی گنجائش تقریباً سات ہزار طلبہ کی ہے، لیکن اندازوں کے مطابق طویل عرصے سے بیس ہزار کے قریب افراد یہاں رہائش پذیر تھے۔
یہ بوجھ نہ صرف وسائل پر تھا بلکہ تعلیم کے ماحول پر بھی گہرے اثرات ڈال رہا تھا۔
اب جب کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے عملی قدم اٹھایا ہے، بہت سے سابقہ اور موجودہ طلبہ حیرت زدہ ہیں کہ یہ سب کیسے ممکن ہو گیا۔
ان کے مطابق، یہ عمل ایک مکمل منصوبہ بندی، حکمتِ عملی اور ریاستی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں یہ تبدیلی صرف رہائش کے نظام میں بہتری نہیں، بلکہ ایک تعلیمی ادارے کو اُس نظم و ضبط کی طرف لے جا رہی ہے جس کا خواب برسوں سے دیکھا جا رہا تھا
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ تبدیلی کتنی دیرپا اور مضبوط ثابت ہوتی ہے۔