پاکستان میں مقیم غیرقانونی افغان شہریوں اور دیگر غیرملکی باشندوں کی ملک بدری کا عمل ایک مرتبہ پھر شدت اختیار کر چکا ہے۔
حکومتِ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ ان افراد کی واپسی کی جو ڈیڈلائن مقرر کی گئی تھی، اس میں کسی قسم کی توسیع نہیں کی جائے گی، اور اس سلسلے میں ریاستی اقدامات مزید سخت کیے جا رہے ہیں۔
وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے جمعے کے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ملک کے تمام صوبوں میں ان عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا جا چکا ہے جو غیرقانونی تارکین وطن کو رہائش، روزگار یا کاروباری سہولت فراہم کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص غیر قانونی طور پر مقیم کسی بھی غیرملکی کو مکان کرائے پر دیتا ہے، ملازمت دیتا ہے یا کسی دکان میں کام دیتا ہے، تو اس کے خلاف بھی قانون کے مطابق سخت کارروائی ہوگی۔
طلال چوہدری کے مطابق، پاکستان میں رہنے کا حق صرف انہیں افراد کو حاصل ہے جو قانونی طریقے سے یہاں مقیم ہوں یا قیام کی باضابطہ اجازت رکھتے ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ غیرملکیوں کی بے دخلی کے عمل کا دوسرا مرحلہ اس وقت جاری ہے، جس کے تحت اب تک 84 ہزار سے زائد غیرقانونی باشندوں کو ملک سے نکالا جا چکا ہے۔
جبکہ اس سے قبل پہلے مرحلے میں 9 لاکھ 7 ہزار سے زائد افراد کو ان کے ممالک واپس بھیجا گیا۔
اس وقت ملک بھر میں افغان شہریوں کی واپسی کے لیے ایک منظم کریک ڈاؤن جاری ہے، خاص طور پر خیبر پختونخوا، کوئٹہ اور کراچی جیسے شہروں میں جہاں بڑی تعداد میں افغان پناہ گزین برسوں سے آباد ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق حکومت کی جانب سے رواں سال کے آغاز میں دی گئی ڈیڈلائن پہلے ہی ختم ہو چکی ہے، اور اب وہ افغان خاندان جن کے پاس قانونی دستاویزات موجود نہیں، ملک بدری کے خطرے سے دوچار ہیں۔
رواں برس کے اختتام تک تقریباً 30 لاکھ افغان باشندوں کی وطن واپسی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے، جن میں سے ایک بڑی تعداد صوبہ خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر ہے۔
اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ایسے افغان شہریوں کی تعداد آٹھ لاکھ سے زائد ہے جن کے پاس افغان سیٹیزن کارڈ موجود ہیں، جبکہ تقریباً 13 لاکھ ایسے افراد ہیں جو حکومتِ پاکستان کے پاس باقاعدہ رجسٹرڈ ہیں اور جنہیں پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کے تحت پاکستان میں عارضی قیام کی اجازت ملی ہوئی ہے۔
اگرچہ وفاقی حکومت ملک بھر میں اس پالیسی پر سختی سے عمل درآمد کر رہی ہے، لیکن خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کچھ حد تک تذبذب کا شکار دکھائی دیتی ہے۔
صوبے میں پالیسی پر مکمل یکسوئی نظر نہیں آ رہی، جس کی ایک بڑی وجہ وہاں افغان مہاجرین کی دہائیوں پر محیط موجودگی اور مقامی سطح پر ان کے ساتھ جڑے معاشی اور سماجی روابط ہیں۔
مارچ 2024 میں وفاقی وزارتِ داخلہ نے ایک بار پھر غیرقانونی طور پر مقیم افغان باشندوں اور ان کے سرپرستوں کو خبردار کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ افغان سیٹیزن کارڈ رکھنے والے افراد بھی 31 مارچ تک پاکستان چھوڑ دیں، بصورتِ دیگر انہیں زبردستی ملک بدر کر دیا جائے گا۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ غیرقانونی غیرملکیوں کی واپسی کا عمل اکتوبر 2023 میں باضابطہ طور پر شروع کیا گیا تھا، جب حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ سب سے پہلے ان تارکین وطن کو واپس بھیجے گی جن کے پاس پاکستان میں قیام کی کوئی قانونی سند نہیں۔
اس پالیسی کے تحت نہ صرف افغان شہریوں کو نشانہ بنایا گیا، بلکہ دیگر غیرملکی باشندے بھی اس میں شامل ہیں۔
گزشتہ چار دہائیوں کے دوران پاکستان نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تقریباً 28 لاکھ افغان شہریوں کو پناہ دی ہے۔
ان میں سے اندازاً 10 لاکھ افراد وقت کے ساتھ ساتھ اپنے وطن واپس جا چکے ہیں، لیکن اب حکومت چاہتی ہے کہ باقی ماندہ افراد بھی بتدریج وطن لوٹیں تاکہ پاکستان کی سلامتی، معیشت اور داخلی نظم و نسق پر پڑنے والے بوجھ میں کمی لائی جا سکے۔