امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی زیرِ قیادت انتظامیہ نے ویزہ پالیسی میں سختی کرتے ہوئے ایک نیا اور متنازع قدم اٹھایا ہے، جس کے تحت ایسے تمام افراد کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کی باریک بینی سے چھان بین کی جائے گی جنہوں نے یکم جنوری 2007 یا اس سے پہلے غزہ کی پٹی کا دورہ کیا ہو۔
چاہے ان کا یہ سفر سرکاری ہو، غیرسرکاری تنظیم سے وابستگی کے تحت ہو یا کسی اور مقصد کے لیے۔
اس پالیسی کا مقصد امریکی حکومت کے مطابق یہ یقینی بنانا ہے کہ کوئی بھی شخص، جو امریکہ آنے کا خواہش مند ہو، ملکی سلامتی کے لیے خطرہ نہ بنے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک خفیہ مراسلے کے مطابق ویزہ درخواست گزاروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو اسکین کیا جائے گا اور اگر ان اکاؤنٹس پر ایسی کوئی سرگرمی پائی گئی جو امریکی سلامتی سے متصادم ہو یا اس میں اسرائیل مخالف مواد ہو، تو ان افراد کو سکیورٹی ایڈوائزری اوپینین یعنی SAO رپورٹ جمع کروانے کا کہا جائے گا۔
یہ ہدایات دنیا بھر میں قائم امریکی سفارتخانوں اور قونصل خانوں کو بھیجی گئی ہیں۔
مراسلے کے مطابق، جن افراد کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس میں امریکی پالیسی یا اسرائیل کے خلاف تنقیدی مواد یا مشتبہ بیانات پائے جائیں گے، اُن کی ویزہ درخواست کو مسترد کیا جا سکتا ہے۔
بالخصوص وہ افراد جو فلسطین کی حمایت میں بیانات دے چکے ہوں یا اسرائیل کے فوجی اقدامات پر تنقید کرتے ہوں، وہ اس جانچ پڑتال کی زد میں آئیں گے۔
امریکی سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو کے دستخط سے جاری ہونے والے اس احکامات میں بتایا گیا ہے کہ اب تک 300 سے زائد ویزے منسوخ کیے جا چکے ہیں۔
جن میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو امریکہ میں قانونی طور پر مقیم تھے۔
ان اقدامات کے پیچھے دلیل دی گئی ہے کہ یہ افراد امریکہ کی خارجہ پالیسی یا سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی انتظامیہ کی یہ سختیاں محض سکیورٹی کے نام پر نہیں، بلکہ ان کا نشانہ وہ افراد بھی بن رہے ہیں جو آزادیٔ اظہار رائے کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کے طرزِ عمل پر سوال اٹھاتے ہیں، خاص طور پر غزہ پر حملوں کے تناظر میں۔
ایسے تمام افراد جو سٹوڈنٹ ویزا پر امریکہ میں مقیم ہیں اور فلسطینیوں کے حق میں بات کرتے ہیں، اُن کے لیے بھی ملک بدری کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
صدر ٹرمپ کے ناقدین نے اس پالیسی کو امریکہ کے آئینی اصولوں کے خلاف قرار دیا ہے۔
ان کے مطابق یہ قدم امریکی آئین میں درج آزادیٔ اظہار کے بنیادی حق پر ایک حملہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ چاہے کوئی شخص امریکی شہری ہو یا غیر ملکی تارکِ وطن، اُسے اپنے خیالات کے اظہار کا حق حاصل ہے۔