پاکستان کے وزیر خارجہ اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے اعلان کیا ہے کہ وہ عنقریب افغانستان کا دورہ کریں گے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان جاری سرد مہری کو ختم کیا جا سکے اور تعلقات کو نئی جہت دی جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس دورے کی تیاریاں مکمل ہو رہی ہیں اور آئندہ چند دنوں میں وہ کابل کا ایک روزہ دورہ کریں گے تاکہ باہمی اعتماد کی فضا بحال ہو سکے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان کی جانب سے غیرقانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کے انخلا کی پالیسی پر عملدرآمد جاری ہے۔
اپریل کے آغاز سے اب تک بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (IOM) کے مطابق تقریباً 60 ہزار افغان شہری پاکستان سے واپس افغانستان جا چکے ہیں۔
پاکستانی حکومت کا مؤقف ہے کہ 8 لاکھ سے زائد ایسے افغان باشندے جن کے ویزے یا رہائشی دستاویزات کی مدت ختم ہو چکی ہے، انہیں ملک چھوڑنا ہوگا۔
پاکستان نے الزام لگایا ہے کہ ان میں کئی افراد دہشت گردی اور منشیات جیسے جرائم میں ملوث ہیں۔
دوسری جانب افغان طالبان حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی اور کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیتی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق افغان مہاجرین کی ملک بدری کے فیصلے کے پیچھے سیکیورٹی خدشات کے ساتھ ساتھ سیاسی محرکات بھی موجود ہیں، خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان (TTP) کی سرگرمیوں کو لے کر، جو پاکستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں کا سبب بن رہی ہیں۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ ٹی ٹی پی کو افغانستان سے محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہیں جہاں سے وہ پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق نے بھی اس حوالے سے سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر افغانستان نے ٹی ٹی پی کے خلاف اقدامات نہ کیے تو دونوں ممالک کے درمیان تمام معاہدے غیر مؤثر تصور کیے جائیں گے۔
یہ سب کچھ اس پس منظر میں ہو رہا ہے کہ پاکستان ان چند ممالک میں شامل تھا جنہوں نے 1990 کی دہائی میں طالبان کی پہلی حکومت کو تسلیم کیا تھا، تاہم 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تناؤ بڑھا ہے۔
پاکستان میں اس وقت بھی اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 30 لاکھ افغان شہری مقیم ہیں، جن میں سے بیشتر عشروں سے یہاں رہ رہے ہیں یا پاکستان میں ہی پیدا ہوئے ہیں۔
حالیہ اقدامات کے تحت نہ صرف رہائشی اجازت نامے منسوخ کیے جا چکے ہیں بلکہ ان افغانوں کو بھی ملک چھوڑنے کا کہا گیا ہے جو دوسرے ممالک منتقلی کے انتظار میں ہیں۔