ایک اور سنگین سیکیورٹی معاملہ امریکی سیاست میں ہلچل مچا گیا ہے۔
امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ ایک بار پھر تنقید کی زد میں آ گئے ہیں جب یہ انکشاف ہوا کہ انہوں نے حساس نوعیت کی عسکری معلومات ایک عام چیٹ گروپ میں شیئر کیں جس میں ان کی اہلیہ اور بھائی سمیت متعدد دیگر افراد بھی شامل تھے۔
یہ گروپ سگنل نامی عام میسجنگ ایپ پر تشکیل دیا گیا تھا، جو کہ سیکیورٹی کے حساس معاملات میں استعمال کی اجازت یافتہ پلیٹ فارم نہیں ہے۔
اطلاعات کے مطابق اس چیٹ گروپ کا نام ڈیفنس ٹیم ہڈل رکھا گیا تھا اور اس میں شامل افراد کی تعداد کم از کم 13 تھی۔
ان میں پیٹ ہیگستھ کی اہلیہ جینیفر، جو ماضی میں فاکس نیوز کی نیوز پروڈیوسر رہی ہیں، اور ان کے بھائی فل ہیگستھ بھی شامل تھے، جو امریکی محکمہ دفاع (پنٹاگون) میں ہوم لینڈ سکیورٹی کے مشیر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔
نیو یارک ٹائمز اور دیگر معتبر ذرائع کے مطابق، یہ دوسرا موقع ہے جب پیٹ ہیگستھ نے اس چیٹ میں جنگی منصوبہ بندی کے راز افشا کیے۔
قبل ازیں مارچ میں، انہوں نے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف امریکی فضائی کارروائیوں کی تفصیلات بھی اسی گروپ میں پوسٹ کی تھیں، جس میں اہداف، حملوں کی ترتیب اور استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی معلومات بھی شامل تھیں۔
اس نئے انکشاف نے سینیٹ میں بھی بھونچال پیدا کر دیا ہے۔ ڈیموکریٹ رہنما چک شومر نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر سخت ردعمل میں لکھا کہ ہیگستھ نے نہ صرف قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا بلکہ ہمارے فوجی اہلکاروں کی زندگیاں بھی داو پر لگا دیں، مگر ٹرمپ ان کو اب بھی برطرف نہیں کر رہے۔
انہوں نے واضح طور پر وزیر دفاع کو فوری طور پر برطرف کرنے کا مطالبہ کیا۔
صحافی جیفری گولڈبرگ، جو حادثاتی طور پر سگنل ایپ پر ایک خفیہ گروپ میں شامل ہو گئے تھے، نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ چیٹ گروپ ’حوثی پی سی سمال گروپ‘ کہلاتا تھا۔
ان کے مطابق، امریکی قومی سلامتی مشیر مائیک والٹز نے حوثیوں کے خلاف کارروائی کے لیے خصوصی ٹائیگر ٹیم بنانے کی ہدایت دی تھی۔
اور اسی ٹیم کی منصوبہ بندی کی تفصیلات غیر ارادی طور پر عوامی چیٹ میں شامل ہو گئیں۔
اگرچہ وائٹ ہاؤس کی سیکیورٹی کونسل اور پنٹاگون سے اس واقعے پر کوئی فوری ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم دفاعی و قانونی ماہرین اس معاملے کو قومی سلامتی کے قوانین کی سنگین خلاف ورزی تصور کر رہے ہیں۔
سابق حکومتی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ حملوں کی تفصیلات پیشگی عام ہونے سے نہ صرف مشن کی ساکھ متاثر ہوتی ہے بلکہ لڑاکا پائلٹس کی جانیں بھی خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
فی الوقت امریکی کانگریس اور دیگر تفتیشی ادارے اس واقعے کی گہرائی سے چھان بین کر رہے ہیں۔
لیکن اس سارے معاملے نے ٹرمپ انتظامیہ کی سیکیورٹی پالیسیوں پر ایک بار پھر سوالات کھڑے کر دیے ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب دنیا پہلے ہی امریکی خفیہ کارروائیوں کی شفافیت پر تحفظات کا شکار ہے۔