انقرہ: وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے درمیان انقرہ میں ہونے والی ملاقات نے نہ صرف دونوں برادر ممالک کے تعلقات کو نئی سمت دی، بلکہ عالمی امور پر یکساں مؤقف کے اظہار کے ساتھ امت مسلمہ کے لیے یکجہتی کا پیغام بھی دیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف دو روزہ سرکاری دورے پر ترکیہ پہنچے، جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ ترک وزیر دفاع نے انقرہ ایئرپورٹ پر وزیراعظم کا خیرمقدم کیا، جس کے بعد انقرہ کے تاریخی ایوان صدر میں ترک صدر رجب طیب اردوان سے ان کی اہم ملاقات ہوئی۔
ملاقات میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان ترکیہ کے ساتھ مختلف شعبوںخاص طور پر توانائی، کان کنی، زراعت، دفاع، آئی ٹی، سائبر سیکیورٹی اور مصنوعی ذہانت میں تعاون کا خواہاں ہے۔ انہوں نے مشترکہ منصوبوں اور دوطرفہ سرمایہ کاری کے ذریعے باہمی اقتصادی تعاون کو وسعت دینے پر زور دیا۔ دونوں رہنماؤں نے اسٹریٹجک کوآپریشن کونسل کے تحت کیے گئے فیصلوں پر عمل درآمد کا جائزہ بھی لیا۔
وزیراعظم اور ترک صدر نے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت اور انسانی بحران پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ دونوں رہنماؤں نے فوری جنگ بندی، انسانی امداد کی فراہمی اور فلسطینی عوام کی حمایت پر زور دیا۔ صدر اردوان نے فلسطین کے لیے پاکستان کی مستقل حمایت کو سراہا۔
وزیر اعظم نے کشمیر کے مسئلے پر ترکیہ کی غیر متزلزل حمایت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ترکیہ ہمیشہ کشمیری عوام کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بھی شمالی قبرص کے مسئلے پر ترکیہ کے اصولی مؤقف کی حمایت کرتا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اس موقع پر کہا کہ ترک صدر کی قیادت میں ترکیہ نے غیر .معمولی ترقی کی ہے۔ انہوں نے 2010 اور 2022 کے تباہ کن سیلابوں کے دوران ترک صدر کے پاکستانی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں ممالک کے درمیان لازوال رشتے کی علامت ہے۔
ملاقات کے بعد ترک صدر نے وزیراعظم اور ان کے وفد کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔ بعد ازاں دونوں رہنماؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس کی، جس میں صدر اردوان نے کہا کہ پاکستان اور ترکیہ دفاعی شعبے میں مشترکہ منصوبے شروع کرنا چاہتے ہیں، اور عالمی سطح پر ان کے مؤقف میں ہم آہنگی ہے۔
وزیر اعظم نے ترک قیادت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ترکیہ اور پاکستان کا تعلق دلوں کا رشتہ ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ مزید مضبوط ہو رہا ہے۔
یہ ملاقات دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف اقتصادی شراکت داری کو فروغ دینے کا باعث بنی، بلکہ عالمی سطح پر اسلاموفوبیا، فلسطین، کشمیر، اور ترقی پذیر دنیا کے مسائل پر مشترکہ آواز بن کر ابھری۔