پہلگام، کشمیر : وادی کشمیر کے مشہور سیاحتی مقام پہلگام میں منگل کے روز ہونے والے ایک ہولناک دہشت گرد حملے میں کم از کم 24 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں، جبکہ کئی دیگر شدید زخمی ہیں۔ سینئر پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بین الاقوامی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب ایک گروہ سیاحوں کی گاڑیوں کو نشانہ بناتے ہوئے فائرنگ اور دھماکوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ یہ واقعہ سرینگر سے تقریباً 90 کلومیٹر دور پیش آیا، جہاں ہر سال لاکھوں سیاح گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران قدرتی حسن سے لطف اندوز ہونے آتے ہیں۔جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اس حملے کو "بزدلانہ” قرار دیتے ہوئے کہا، پہلگام میں بے گناہ سیاحوں پر حملہ انتہائی افسوسناک اور انسانیت کے خلاف ہے۔
موجودہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے واقعے کو حالیہ برسوں میں سب سے بڑا شہریوں پر حملہ قرار دیا۔ ان کے بقول، ہمارے مہمانوں کو نشانہ بنانے والے انسان نہیں بلکہ حیوان ہیں، اور ان کے لیے کوئی ہمدردی نہیں ہو سکتی۔نئی دہلی کے نمائندے اور خطے کے گورنر منوج سنہا نے بھی واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا وعدہ کیا۔
تاحال کسی تنظیم نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے، تاہم وادی کشمیر میں 1989 سے جاری شورش کے دوران متعدد گروہ بھارتی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ کچھ گروہ کشمیر کی آزادی جبکہ دیگر پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کرتے ہیں۔
حملے کے بعد بی جے پی کے رہنما رویندر رینا نے بیان دیا کہ یہ حملہ ان سیاحوں پر تھا جو امن، حسن اور کشمیری مہمان نوازی کی تلاش میں یہاں آئے تھے۔ دہشت گردوں نے نہتے افراد کو نشانہ بنا کر اپنی بزدلی ظاہر کی ہے۔گزشتہ برسوں میں حکومت نے وادی میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے کئی اقدامات کیے، جن میں بہتر سڑکیں، نئے ہوٹل، اور عالمی تقریبات جیسے جی ٹوئنٹی اجلاس شامل ہیں۔ 2024 میں کشمیر آنے والے سیاحوں کی تعداد 35 لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی۔ بھارتی حکام کا الزام ہے کہ پاکستان اس شورش میں ملوث ہے، تاہم پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتا ہے اور کشمیر کو ایک غیر حل شدہ بین الاقوامی مسئلہ قرار دیتا ہے۔یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب بھارت عالمی برادری کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ کشمیر پرامن اور محفوظ ہے۔ تاہم اس اندوہناک واقعے نے نہ صرف مقامی سکیورٹی صورتحال پر سوالات اٹھا دیے ہیں بلکہ سیاحتی شعبے کو بھی ایک مرتبہ پھر خطرے میں ڈال دیا ہ