فوجی عدالتوں میں سویلینز کے مقدمات کے حوالے سے اہم کیس کی سماعت کے دوران، جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے سخت ریمارکس میں کہا کہ حکومت پالیسی فیصلے کرے جو بھی کرے، لیکن عدالت اپنے کیس کے فیصلے میں آزاد ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت چاہے تو تمام کیسز فوجی عدالتوں میں بھیج دے، لیکن یہ معاملہ پارلیمنٹ کی صوابدید ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کرے یا نہ کرے۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو 9 مئی کے واقعات، یقین دہانیوں پر عملدرآمد اور اپیل کے حق سے متعلق تین اہم نکات پر دلائل دینے کی تیاری کا اعلان کیا۔ تاہم، جسٹس جمال مندوخیل نے واضح طور پر کہا کہ حکومت کے پالیسی فیصلوں کا مقدمے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، اور عدالت کو اس فیصلے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
مزید براں، جسٹس محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ تینوں نکات پر دلائل کے لیے کتنے وقت کی ضرورت ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے 45 منٹ میں دلائل مکمل کرنے کا کہا۔ عدالت نے اس اہم کیس کی مزید سماعت 5 مئی تک ملتوی کر دی۔
یہ کیس نہ صرف فوجی عدالتوں کی حیثیت بلکہ حکومت کے پالیسی فیصلوں اور سویلینز کے حقوق کے حوالے سے بھی ایک سنگین قانونی موڑ اختیار کرتا جا رہا ہے۔