اسلام آباد :پاکستان فوج نے ایک چونکا دینے والا انکشاف کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ انڈین فوج کے حاضر سروس افسران براہِ راست پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے ایک ہنگامی پریس بریفنگ میں میڈیا کو بتایا کہ پاکستان کے پاس ایسے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھارت ایک ریاستی پالیسی کے تحت پاکستان کے اندر تخریب کاری کروا رہا ہے۔
جنرل احمد شریف نے اس بریفنگ میں وہ تصاویر اور آڈیو کلپس بھی میڈیا کے سامنے رکھے جو ایک انڈین نیٹ ورک کے وجود اور اس کی سرگرمیوں کی گواہی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ صرف را کی کارروائی نہیں بلکہ انڈین آرمی خود اپنے افسران، جے سی اوز اور سپاہیوں کے ذریعے پاکستان میں عدم استحکام پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘
عبدالمجید کی گرفتاری سےبھارتی تخریب کاری کا پردہ چاک ہوچکاہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ 25 اپریل 2025 کو جہلم بس اسٹینڈ سے عبدالمجید نامی ایک شخص کو گرفتار کیا گیا، جس کے قبضے سے ایک آئی ای ڈی بم، دو موبائل فونز اور 70 ہزار روپے برآمد کیے گئے۔ تفتیش کے دوران پتہ چلا کہ عبدالمجید پاکستانی شہری ہونے کے باوجود انڈین فوج کے حاضر سروس افسر صوبیدار سکھویندر کے لیے کام کر رہا تھا۔ اس شخص کے گھر سے انڈین ساختہ ڈرون اور 10 لاکھ روپے بھی برآمد کیے گئے۔
چیٹ اور فرانزک شواہدموجودہیں ہم الزام نہیں، ثبوت بھی دےرہے ہیں۔عبدالمجید کے موبائل فون کی فرانزک جانچ میں ان کے انڈین ہینڈلر سکندر (صوبیدار سکھویندر) کے ساتھ ہونے والی واٹس ایپ چیٹ سامنے آئی، جس میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی، اہداف اور فنڈنگ کے واضح شواہد ملے۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کے مطابق ’یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ مستند شواہد ہیں جو کسی بھی بین الاقوامی آزاد تحقیقاتی ادارے کے سامنے پیش کیے جا سکتے ہیں۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ یہ کوئی انفرادی کارروائیاں نہیں بلکہ بھارت کی منظم حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان میں بدامنی، افراتفری اور عالمی سطح پر اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے برعکس، پہلگام واقعے کے حوالے سے بھی سات دن گزرنے کے باوجود کوئی ثبوت پیش نہیں کیے جا سکے۔
اس انکشاف کے بعد یہ امکان ہے کہ پاکستان بھارت کے خلاف عالمی فورمز پر باضابطہ شکایت کرے گا اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کرے گا کہ وہ انڈیا کی ریاستی دہشت گردی کا نوٹس لے۔
یہ انکشاف صرف ایک ملزم کی گرفتاری تک محدود نہیں بلکہ خطے میں بڑھتے ہوئے تناؤ، فوجی حکمت عملیوں کی پیچیدگی اور جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کی راہ میں درپیش چیلنجز کی غمازی کرتا ہے۔ اگر یہ الزامات بین الاقوامی سطح پر ثابت ہو جاتے ہیں تو یہ نہ صرف بھارت کی پوزیشن کو کمزور کریں گے بلکہ جنوبی ایشیا میں ایک نیا سفارتی بحران جنم لے سکتا ہے۔