سعودی عرب کے الباحہ ریجن کی بالجرشی کمشنری کے السراہ پہاڑی سلسلے میں واقع جبل اثرب، قدرتی خوبصورتی اور قدیم تاریخ کا سنگم ہے۔ یہ پہاڑ اپنی سرسبز وادیوں، چمکدار چٹانوں اور ہزاروں سال پرانی تہذیبوں کے آثار کی وجہ سے مشہور ہے، اور سیاحوں کے لیے ایک جنت سے کم نہیں۔
جبل اثرب کا سفر ان لوگوں کے لیے ایک خواب کی طرح ہے جو قدرتی حسن کے دلدادہ ہیں۔ سطح سمندر سے 2500 میٹر بلند یہ پہاڑ سبزے سے ڈھکا ہوا ہے، جہاں ’عرعر‘ اور ’جنگلی زیتون‘ کے درخت بکثرت پائے جاتے ہیں۔ بارش کی زیادہ مقدار کی بدولت یہاں کا موسم ہمیشہ خوشگوار رہتا ہے، اور پہاڑ کی ڈھلوانوں، تنگ پگڈنڈیوں اور گھنے جنگلات میں مہم جوئی کرنے والوں کے لیے ایک منفرد تجربہ پیش آتا ہے۔
جبل اثرب کی سب سے بڑی خصوصیت اس کے مختلف مقامات پر موجود قدیم غار ہیں، جن میں سب سے مشہور ’قمیشہ‘ کا غار ہے۔ اس غار کے چٹانی پتھروں پر پائے جانے والے نقوش، ایک خاموش زبان میں عہد رفتہ کی ثقافت کو بیان کرتے ہیں۔ یہ نقوش ہمیں سعودی عرب کی قدیم تاریخ کے قریب لے جاتے ہیں، جیسے کہ ہزاروں سال پہلے یہاں کی قوموں کی زندگی اور رہن سہن کی جھلک۔
ڈاکٹر احمد بن قشاش الغامدی، ماہر اثار قدیمہ، کے مطابق جبل اثرب اپنی بلند چٹانوں اور سفید گرینائٹ کی خصوصیت کی بدولت نہ صرف جمالیاتی لحاظ سے بے نظیر ہے، بلکہ یہ عرب نسل کے چیتے کے لیے بھی ایک اہم مسکن ہے۔ یہ چیتا جو کہ اب خطرے سے دوچار ہے، اس پہاڑ کی پہاڑیوں اور وادیوں میں پناہ گزین ہے۔ اس کے تحفظ کے لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پہاڑ کی اہمیت ماحولیاتی، ثقافتی اور سماجی سطح پر بہت زیادہ ہے۔
اس پہاڑ کی تاریخی اہمیت میں اضافہ اس کے قریبی علاقوں ’الرویس‘ اور ’لوبہ‘ سے ہوتا ہے، جہاں بہترین قسم کی ’کافی‘ کاشت کی جاتی تھی۔ ان علاقوں کے کھیتوں میں اگائی جانے والی کافی کی اعلیٰ معیار کی شہرت تھی، جو کہ یہاں کی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔
جبل اثرب نہ صرف ایک قدرتی منظرنامہ ہے، بلکہ سعودی عرب کے ثقافتی اور تاریخی ورثے کا ایک قیمتی خزانہ بھی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی حفاظت اور ماحولیاتی توازن کا تحفظ نہ صرف ہمارے لیے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ضروری ہے۔ اس پہاڑ کی جغرافیائی اور ماحولیاتی خصوصیات اسے ایک نایاب مقام بناتی ہیں، جس کا تحفظ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
جبل اثرب ایک ایسا مقام ہے جہاں قدرت اور تاریخ ایک دوسرے سے ملتے ہیں، جہاں ہر پتھر اور غار اپنی کہانی سناتا ہے اور جہاں کی سبز وادیوں میں ایک جیتی جاگتی ثقافت کا عکس دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ پہاڑ نہ صرف سعودی عرب کے ورثے کا حصہ ہے بلکہ اس کی ماحولیاتی اہمیت بھی اس کے عالمی تحفظ کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے