راولپنڈی کے شہریوں کو اُس وقت شدید حیرت اور افسوس کا سامنا کرنا پڑا جب ایک انتہائی سنگین اور غیر معمولی واقعہ سامنے آیا، جس میں قانون کے محافظ ہی قانون شکن نکلے۔
تھانہ دھمیال کی حدود میں پیش آئے اس واقعے نے پولیس کی کارکردگی اور اس کے اندر موجود بدعنوان عناصر پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
ایبٹ آباد کے رہائشی ذبیح اللہ نامی شہری نے اپنے بیرون ملک سے آئے مہمانوں کو ایئرپورٹ تک چھوڑنے کے لیے ایک نجی گاڑی کا انتظام کیا۔
ان مہمانوں کے ہمراہ ذبیح اللہ کے ذاتی ڈرائیور شوکت بھی موجود تھے۔ جیسے ہی یہ مہمان راولپنڈی کے علاقہ ٹھلیاں کے قریب پہنچے، وہاں پہلے سے موجود تین پولیس اہلکاروں نے، جن میں اے ایس آئی عاطف اور سپاہی زبیر شامل تھے، ان کی گاڑی کو روکا۔
یہ پولیس اہلکار باقاعدہ وردی میں موجود تھے اور انہوں نے بغیر کسی وجہ کے گاڑی کو چیکنگ کے بہانے روکا۔
ابتدائی طور پر مہمانوں سے عام تفتیش کے انداز میں سوالات کیے گئے، مگر بات صرف سوالات تک محدود نہ رہی۔ پولیس اہلکاروں نے ان افراد کی جامہ تلاشی لی اور ان کے سامان میں سے نہ صرف نقد رقم بلکہ ذاتی اشیاء، حتیٰ کہ کھانے پینے کی چیزیں بھی اپنے قبضے میں لے لیں۔
متاثرین کے مطابق پولیس اہلکاروں نے تقریباً 20 ہزار روپے، ایک قیمتی موبائل فون اور دو ڈبے سوہن حلوے کے زبردستی اپنے پاس رکھ لیے۔ اس کے علاوہ دیگر چھوٹی موٹی اشیاء بھی اٹھا لی گئیں۔
صورتحال اس وقت مزید تشویشناک ہوئی جب ان پولیس اہلکاروں نے ان افراد کو زبردستی گاڑی سے اتار کر ایک سنسان کھیت کی طرف لے جانے کی کوشش کی۔
وہاں ان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ دو لاکھ روپے کی رقم ادا کریں، بصورتِ دیگر انہیں جھوٹے مقدمے میں گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا جائے گا۔
شدید خوف اور غیر ملکی مہمانوں کی عزت کے پیشِ نظر متاثرہ افراد نے معاملے کو وہیں ختم کرنے کی کوشش کی اور پولیس اہلکاروں کے ساتھ 50 ہزار روپے میں صلح کر لی۔
پولیس اہلکار متاثرین کو ایئرپورٹ لے گئے، جہاں سے انہوں نے اے ٹی ایم سے رقم نکالی اور وردی میں موجود اے ایس آئی کو رقم دی۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پولیس اہلکار نہ صرف ان کے ہمراہ اے ٹی ایم بوتھ کے اندر گئے بلکہ ڈرائیور کو ایک علیحدہ کمرے میں محبوس بھی رکھا تاکہ کوئی مزاحمت نہ ہو سکے۔
ذبیح اللہ نے اگلے دن انصاف لینے کی نیت سے متعلقہ پولیس اہلکاروں کے پاس جا کر شکایت کی، مگر وہاں بھی انہیں بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر ہاتھ اٹھایا گیا، ان کے کپڑے پھاڑے گئے اور انہیں وہاں سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا۔
انہوں نے فوری طور پر ایمرجنسی نمبر 15 پر کال کی جس کے بعد مقامی پولیس موقع پر پہنچی اور ابتدائی تحقیقات میں حقائق سامنے آنے لگے۔
متاثرہ شہری کے مطابق، جب واقعے کا دائرہ وسیع ہوا اور شواہد اکھٹے ہونے لگے، تو پولیس اہلکاروں نے اپنی جان بچانے کی خاطر ذبیح اللہ کو کپڑوں کی قیمت کے طور پر 16 ہزار روپے موبائل بینکنگ کے ذریعے منتقل کیے۔
واقعے کے دوران ذبیح اللہ کے ملازم نے موقع پر موجود رہ کر پوری کارروائی کی ویڈیو بھی ریکارڈ کر لی، جو بعد ازاں ایک اہم ثبوت کے طور پر سامنے آئی۔
شواہد کی روشنی میں ذبیح اللہ نے تھانہ دھمیال میں باقاعدہ ایف آئی آر درج کروائی جس میں 70 ہزار روپے نقد اور قیمتی موبائل فون کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا۔
ساتھ ہی پولیس اہلکاروں کے غیر قانونی رویے، اختیارات کے ناجائز استعمال، اور غیر ملکی مہمانوں کے ساتھ بدتمیزی پر سخت کارروائی کی استدعا بھی کی گئی۔
پولیس حکام نے معاملے کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے فوری اقدام کیا اور تینوں ملزمان کو گرفتار کر کے ان کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا۔
پولیس کی اعلیٰ قیادت نے بھی اس معاملے میں خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے متاثرہ شہری سے رابطہ کیا اور مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
ذبیح اللہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں بارہا پولیس اہلکاروں کی جانب سے ثالثی کے لیے پیغامات موصول ہو رہے ہیں اور صلح پر اصرار کیا جا رہا ہے۔
تاہم انہوں نے واضح کیا کہ وہ اس واقعے کو ایک مثال بنانا چاہتے ہیں تاکہ آئندہ کوئی پولیس اہلکار شہریوں کے ساتھ اس قسم کی زیادتی نہ کرے۔
انہوں نے کہا، میری کوشش ہے کہ معاف کرنے سے پہلے انہیں قانون کے کٹہرے میں لا کر سب کے سامنے واضح کروں کہ پولیس کی وردی میں چھپے بدعنوان عناصر کو اب چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔
ذبیح اللہ نے راولپنڈی کے سی سی پی او سید خالد ہمدانی، ایس ایچ او اور دیگر افسران کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے انصاف کی فراہمی میں بھرپور کردار ادا کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر تمام شہری آواز اٹھائیں تو معاشرے سے پولیس گردی اور رشوت جیسے ناسور ختم کیے جا سکتے ہیں۔
یہ واقعہ ایک مثال ہے کہ عوامی دباؤ اور میڈیا کی طاقت سے پولیس جیسے ادارے کے اندر موجود کالی بھیڑوں کو بے نقاب کیا جا سکتا ہے۔
یہ قدم نہ صرف انصاف کی جانب ایک سنگ میل ہے بلکہ اس سے آئندہ کسی بھی متاثرہ شہری کو حق لینے کا حوصلہ ملے گا۔