پاکستان میں ایک غیر معمولی اور تشویشناک صورتِ حال رونما ہوئی ہے ایسے لاکھوں افراد کے شناختی کارڈ (CNIC) سرکاری ریکارڈ میں اب بھی فعال ہیں جن کی وفات قبل از وقت ہو چکی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ مرحومین کے لواحقین نادرا کو باقاعدہ طور پر مطلع نہیں کرتے یا شناختی دستاویز منسوخ کرانے کی قانونی کارروائی سے چشم پوشی کر دیتے ہیں۔ قومی نوعیت کے اس ایشو نے نہ صرف شہریوں کے حقوق اور شناخت کے تحفظ کو خطرے میں ڈال دیا ہے بلکہ ملک میں جرائم اور فراڈ کے امکانات کو بھی بے حد تقویت دی ہے۔
نادرا نے یونین کونسلز کے ریکارڈ کا تفصیلی جائزہ لے کر انکشاف کیا کہ اس وقت تقریباً ستر لاکھ (7,000,000) ایسے شناختی کارڈ سرکاری ڈیٹا بیس میں “زندہ” افراد کی فہرست میں شامل ہیں جن کی موت واقع ہو چکی ہے۔ یہ نتائج اس حقیقت کی تأیید کرتے ہیں کہ مرحومین کے انتقال کے بعد ان کے ورثا یا قریبی عزیز شناختی کارڈ منسوخ کرانے کے قانونی تقاضے پورے کرنے میں غفلت برت رہے ہیں۔
ادارے کے ترجمان شباہت علی خان کے مطابق، “ہم نے یونین کونسلز میں رجسٹرڈ فوتگی کے اندراجات اور نادرا کے ڈیٹا بیس کا موازنہ کیا تو معلوم ہوا کہ ان افراد کے شناختی کارڈز فعال ہیں، حالانکہ ان کی موت کے ثبوت (ڈیتھ سرٹیفکیٹ) متعلقہ یونین کونسلز کو فراہم کیے جا چکے ہیں۔”
وفات کے اندراج کے بعد مرحوم کے شناختی کارڈ کی فوری منسوخی قانونی تقاضا ہے تاکہ وہ کارڈ دوبارہ کہیں استعمال نہ ہو سکے۔
ورثا کو یہ ذمہ داری اس وقت پوری کرنی ہوتی ہے جب وہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ حاصل کریں اور اس کے ساتھ نادرا کی قریبی برانچ یا موبائل سروس سینٹر میں جا کر شناختی کارڈ منسوخ کروائیں۔ تاہم، شباہت علی خان نے نشاندہی کی کہ اکثر افراد صرف ڈیتھ سرٹیفکیٹ لینا ہی کافی سمجھ لیتے ہیں اور وہ شناختی کارڈ کی منسوخی کے عمل سے لا علمی یا غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
یہ لاپروائی صرف ایک بظاہر چھوٹی سی ترمیم نہیں بلکہ سنگین سکیورٹی خطرات کو جنم دے سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق، غیر فعال شناختی کارڈ کے ذریعے منظم جرائم پیشہ افراد جعلی بینک اکاؤنٹس کھول سکتے ہیں، جعلی پروپرٹی ٹرانزیکشنز کے ذریعے جائیداد ہتھیانے کی سازش کر سکتے ہیں، ویکسین یا ووٹنگ کے جعلی سرٹیفکیٹ تیار کرا سکتے ہیں اور شناختی فراڈ کے دیگر پیچیدہ کیسز بھی جنم لے سکتے ہیں۔
ایسے سائے دار کارڈز کے ذریعے وفاقی اور صوبائی محکموں میں دستاویزات کا غلط استعمال بڑھ سکتا ہے، جس سے نہ صرف عام شہری بلکہ ریاستی مشینری کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔
ان حالات کے پیشِ نظر نادرا نے ایک مرحلہ وار حکمتِ عملی مرتب کی ہے جس کے تحت مرحومین کے لواحقین کو موبائل فون پر ایس ایم ایس کے ذریعے آگاہ کیا جائے گا کہ “آپ کے باپ/ماں/بہن/بھائی/بیٹے/بیٹی کا ڈیٹھ سرٹیفکیٹ یونین کونسل میں رجسٹرڈ ہو چکا ہے، براہِ کرم نادرا آکر شناختی کارڈ منسوخ کروائیں۔
اگر ایس ایم ایس کے چند دنوں بعد بھی لواحقین نے کارڈ منسوخ نہ کروایا تو نادرا کے اندر کسی بھی نئی دستاویزات (جیسا کہ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ، نتھنال رجسٹریشن وغیرہ) کے اجراء میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کا مقصد صرف افراد کو ٹریک کرنا نہیں بلکہ انہیں قانونی اور اخلاقی ذمہ داری کا شعور دینا ہے۔
نادرا کے حکام تسلیم کرتے ہیں کہ عوام میں اس قانونی تقاضے کا شعور کم ہے۔ بہت سے لوگ غلط فہمی رکھتے ہیں کہ فوتگی کے ساتھ شناختی کارڈ خودبخود کالعدم ہو جاتا ہے، حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
اسی غلط ادراک کو دور کرنے کے لیے نادرا نے ایک وسیع پیمانے پر آگاہی مہم کے آغاز پر بھی غور کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس مہم میں ملک بھر کے دیہی و شہری علاقوں میں بل بورڈز، ریڈیو و ٹیلویژن پر پیغامات اور سوشل میڈیا کے ذریعے تشہیر شامل ہوگی تاکہ ہر شہری اس عمل کی اہمیت سے آگاہ ہو سکے۔
سائبر کرائم اور شناختی فراڈ کے تجربہ کار ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شناختی سائے (Shadow Identities) کا خطرہ موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے افراد جو اب دنیا میں نہیں رہے، لیکن ان کے فعال شناختی کارڈز کے ذریعے کوئی اور اپنی شناخت پوشیدہ رکھ سکتا ہے۔
ایک ریٹائرڈ پولیس افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ اگر متوفی شخص کا شناختی کارڈ منسوخ نہ کیا جائے تو یہ ایک خطرناک ہتھیار بن سکتا ہے۔
معاشی لین دین، جائیدادوں کی نیلامی، مجرمانہ سرگرمیاں اور بین الاقوامی سطح پر شناختی فراڈ—ہر چیز میں ایسے کارڈز کے ذریعے جعل سازی ممکن ہے۔
حالیہ برسوں میں پاکستان میں شناختی فراڈ کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اور متعدد مقدمات ایسے سامنے آئے جن میں ملزمان نے مردہ افراد کے اکاؤنٹس یا شناختی کارڈز کا ناجائز استعمال کیا۔
ماہرین کے بقول اگر یہ مسئلہ بروقت حل نہ کیا گیا تو ملک میں بین الاقوامی سطح پر بھی شناختی دھوکہ دہی کے مقدمات میں اضافہ ہو سکتا ہے، جو پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچائے گا۔
نادرا کے ترجمان نے واضح کیا کہ ریاست کے ساتھ ساتھ ہر شہری پر بھی لازم ہے کہ وہ شناختی دستاویزات کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ یہی وجہ ہے کہ نادرا ایس ایم ایس کے ساتھ ساتھ ایک خصوصی ہیلپ لائن اور موبائل ایپ متعارف کرانے کا بھی ارادہ رکھتا ہے، تاکہ لواحقین بلا تکلف شناختی کارڈ کی منسوخی کا پورا عمل گھر بیٹھے مکمل کر سکیں۔
نادرا ایپلیکیشن کے ذریعے مرحوم کا نام، شناختی کارڈ نمبر اور متعلقہ یونین کونسل کا اندراج درج کر کے چند کلکس میں کارڈ منسوخ کیا جا سکے گا۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر شروع ہونے والی بحث نے یہ بھی اجاگر کیا ہے کہ شناختی کارڈ منسوخی کے عمل کو مزید آسان اور سستا بنانے کی ضرورت ہے۔
شہریوں نے تجویز دی ہے کہ اگر نادرا کی فیس معافی کی جائے یا کم از کم آن لائن درج اندراج کے بعد بذریعہ ڈاک کارڈ کی ڈسپیچ کا عمل شروع کیا جائے تو لواحقین کا بوجھ کم ہو گا اور نادرا کے دفاتر پر رش بھی کنٹرول میں رہے گا۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ شناختی کارڈ معاشی، سماجی اور قانونی اعتبار سے شہری کی پہچان ہے۔ یہ دستاویز ایک فعال شناخت فراہم کرتی ہے جس کے بغیر نہ تو کوئی بینک اکاؤنٹ کھولا جا سکتا ہے اور نہ ہی گاڑی یا پراپرٹی منتقل ہو سکتی ہے۔
شناختی کارڈ کی منسوخی اس لیے ضروری ہے تاکہ مرحوم شخص کی شناخت کو ایک مرتبہ کے لیے مکمل طور پر ریکارڈ سے ختم کیا جا سکے اور کوئی غیر متعلقہ فرد اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکے۔
اگرچہ نادرا کی طرف سے آغاز کی جانے والی حکمتِ عملی مثبت قدم ہے، مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی کامیابی کے لیے حکومت، سول سوسائٹی، میڈیا اور تعلیمی اداروں کو بھی اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔
بچوں کو اسکولوں میں پہچان کے حقوق اور شناختی کارڈز کے تحفظ کے بارے میں آگاہی دی جانی چاہئے، جبکہ بزرگ شہریوں کو بھی سہولت فراہم کرنے کے لیے خصوصی مراکز کھولے جائیں۔