یورپ اور مشرق وسطیٰ کے بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے میں ایک نئی پیشرفت اس وقت دیکھنے میں آئی جب فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے شام کے عبوری سربراہ احمد الشرع کو پیرس میں خوش آمدید کہا۔
یہ احمد الشرع کا یورپ کا پہلا سرکاری دورہ ہے، جو ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب شام میں برسوں سے جاری خانہ جنگی کے بعد ایک نئی عبوری حکومت وجود میں آئی ہے، جس پر داخلی طور پر بھی تنقید ہو رہی ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی اس کے طرز حکمرانی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
فرانسیسی ایوان صدر (ایلیزے پیلس) کے مطابق، صدر میکرون اور شامی رہنما کے درمیان ہونے والی ملاقات نہ صرف سیاسی اہمیت کی حامل ہے بلکہ یہ اس عزم کی بھی عکاس ہے کہ فرانس شام میں جمہوریت، انسانی حقوق اور اقلیتوں کے تحفظ کے لیے اپنی حمایت جاری رکھے گا۔
میکرون نے اس ملاقات کو شام کے عوام سے اپنی تاریخی وابستگی کا تسلسل قرار دیا، اور کہا کہ فرانس ایک ایسے شام کی حمایت کرتا ہے جو آزاد، خودمختار اور سب کے لیے قابل قبول ہو۔
یہ ملاقات اُس وقت سامنے آئی ہے جب شام میں نئی اسلامی مزاج کی حکومت پر فرقہ وارانہ تشدد کو نہ روکنے پر تنقید بڑھتی جا رہی ہے۔ حالیہ مہینوں میں، بالخصوص مارچ کے دوران فرقہ وارانہ فسادات میں 1700 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں سے بیشتر بشار الاسد کے فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔
اس صورتحال نے عبوری حکومت کی قیادت پر یہ سوال اٹھا دیے ہیں کہ آیا وہ ملک کے اندر موجود شدت پسند عناصر پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتی بھی ہے یا نہیں۔
میکرون کی جانب سے احمد الشرع کو ابتدائی طور پر فروری میں پیرس کا دورہ کرنے کی دعوت دی گئی تھی، تاہم اس دعوت کے ساتھ یہ شرط بھی منسلک تھی کہ شام میں ایک ایسی حکومت قائم کی جائے جو تمام طبقات، خاص طور پر اقلیتوں اور سول سوسائٹی کی نمائندگی کرے۔ بعدازاں، مارچ میں فرانس نے پیرس میں ایک اہم کانفرنس منعقد کی جس کا مقصد شام کی تعمیر نو اور سیاسی عبوری عمل کی سمت طے کرنا تھا۔
فرانسیسی صدر کا یہ قدم داخلی سطح پر بھی خاصی تنقید کی زد میں آیا۔ دائیں بازو کی مقبول سیاسی رہنما میرین لی پین نے اس ملاقات کو ’غیرذمہ دارانہ‘ اور ’اشتعال انگیز‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ میکخواں ایک ایسے شخص سے ملاقات کر رہے ہیں جس کے ماضی میں شدت پسند گروہوں سے روابط رہے ہیں۔ انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ صدر میکخواں دراصل شام میں موجود شدت پسند اسلامی گروہوں کو بین الاقوامی ساکھ دے رہے ہیں۔
دوسری جانب فرانس کے وزیر خارجہ ژاں نویل بارو نے اس پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ فرانس کی سلامتی اب شام کے حالات سے براہِ راست جڑی ہوئی ہے۔ ان کے مطابق دہشت گردی، منشیات کی اسمگلنگ اور غیرقانونی ہجرت جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے شام کے ساتھ براہ راست رابطہ ناگزیر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر فرانس شامی عبوری حکومت سے بات چیت نہیں کرتا تو یہ ’داعش کو کھلی چھوٹ دینے‘ کے مترادف ہوگا۔
اسرائیل کی جانب سے بھی شام کے اندر بڑھتے ہوئے اثرات کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں اسرائیل نے شام کے مختلف علاقوں پر متعدد حملے کیے، جن میں سے ایک صدارتی محل کے قریب بھی کیا گیا۔
اسرائیلی حکومت نے اس حملے کو دروز اقلیت کے تحفظ اور نئی شامی حکومت کو ’واضح پیغام‘ دینے کی کوشش قرار دیا۔ تاہم شامی عبوری حکومت نے ان حملوں کو ’سنگین اشتعال انگیزی‘ قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ اسرائیلی کارروائیوں کا نوٹس لے۔
فرانس، جو کبھی شام کا نوآبادیاتی حاکم رہ چکا ہے، اب روس کے کم ہوتے اثرورسوخ کے تناظر میں ایک بار پھر مشرق وسطیٰ میں اپنی سفارتی موجودگی کو مستحکم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
فرانسیسی کمپنیاں بھی شام کی تعمیر نو میں تجارتی امکانات دیکھ رہی ہیں، اور امکان ہے کہ جلد وہ شام میں انفراسٹرکچر، تعلیم اور صحت جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کریں گی۔
تاہم، شامی عوام اس تمام عمل کو مختلف زاویے سے دیکھ رہے ہیں۔ طویل جنگ اور مسلسل غیر یقینی صورتحال نے شامی سماج کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔ 90 فیصد سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، جب کہ بنیادی سہولیات کی شدید قلت ہے۔ ایسے میں بین الاقوامی حمایت کا سوال اس بات پر بھی منحصر ہے کہ نئی حکومت واقعی کتنی جامع اور سب کی نمائندہ ہے۔
اقوام متحدہ کے کچھ ذرائع کے مطابق، چونکہ احمد الشرع پر ابھی تک سفری پابندیاں عائد ہیں، اس لیے فرانسیسی حکومت کو ان کے دورہ پیرس کے لیے اقوام متحدہ سے خصوصی رعایت حاصل کرنا پڑی جیسا کہ ترکیہ اور سعودی عرب کے حالیہ دوروں میں کیا گیا تھا۔
اس تمام تر صورتحال سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ فرانس نہ صرف مشرق وسطیٰ میں اپنی سفارتی پوزیشن کو دوبارہ متحرک کرنے کے خواہاں ہے، بلکہ وہ شامی عوام کے ساتھ تعلقات کو ایک نئے انداز میں استوار کرنا چاہتا ہے۔ تاہم، اس عمل کو کامیاب بنانے کے لیے شامی حکومت کو نہ صرف اپنی داخلی پالیسیوں کو شفاف اور جامع بنانا ہوگا بلکہ بین الاقوامی برادری کی تشویشات کو بھی دور کرنا ہوگا۔