ریاض/واشنگٹن : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ رواں ماہ 13 مئی کو سعودی عرب کے دورے سے اپنی صدارت کی دوسری مدت کے پہلے بین الاقوامی دورے کا آغاز کریں گے۔ ان کا یہ تین روزہ تاریخی دورہ نہ صرف خلیج تعاون کونسل (GCC) کے سربراہان کے ساتھ ملاقاتوں پر مشتمل ہوگا بلکہ یہ امریکا کے مشرق وسطیٰ میں تزویراتی (اسٹریٹجک) اثر و رسوخ کے ازسرنو تعین کا بھی اشارہ ہے۔
ٹرمپ 13 سے 16 مئی کے دوران سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کریں گے۔ اگرچہ انہوں نے حال ہی میں پوپ فرانسس کی آخری رسومات کے لیے روم کا مختصر دورہ کیا تھا، تاہم خلیجی دورہ ان کی خارجہ پالیسی کی نئی سمت کا پہلا باقاعدہ اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔
صدر ٹرمپ کا ریاض میں GCC کے سربراہان سے اعلیٰ سطح کی ملاقات کا مقصد نہ صرف سیاسی مفاہمت کو مضبوط کرنا ہے بلکہ اقتصادی تعاون، دفاعی شراکت داری اور توانائی کے میدان میں مشترکہ مستقبل کی تشکیل پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
خبر رساں اداروں کے مطابق، اس وقت تک اجلاس میں دیگر عرب ممالک کو شامل کرنے کا کوئی باضابطہ منصوبہ موجود نہیں، تاہم علاقائی صورتحال کے پیش نظر تبدیلی کا امکان رد نہیں کیا جا رہا۔
اس دورے سے محض چند روز قبل، امریکا نے سعودی عرب کو 3.5 ارب ڈالر کے جدید میزائل نظام کی فروخت کی منظوری دی، جسے اسٹریٹجک توازن اور مشرق وسطیٰ میں سلامتی کے تحفظ کی سمت میں اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
ٹرمپ کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکا اور ایران کے درمیان جوہری پروگرام پر بالواسطہ مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہو چکا ہے۔ یہ وہی صدر ٹرمپ ہیں جنہوں نے 2018 میں ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کو ختم کر دیا تھا، تاہم اب وہ ایک نئے معاہدے کے لیے پرامید ہیں تاکہ خطے میں کشیدگی کم کی جا سکے اور اسرائیلی فوجی کارروائی کے خدشے کو روکا جا سکے